Very Funny Jokes in Urdu Best Jokes in Urdu

ایک بچہ گھر سے مار کھا کر غصے میں سکول جا رہا تھا
راستے میں ایک آدمی نے پوچھا: بیٹا پڑھتے ہو؟؟؟
بچہ: نہیں، یونیفارم پہن کر مجرا کرنے جاتا ہوں۔۔

-------------------

پاگل ہسپتال کے ایک کمرے میں سب پاگل ڈانس کر رہے تھے
ان میں ایک پاگل چپ کر کہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
ڈاکٹر صاحب نے سمجھا کہ شاید یہ پاگل ٹھیک ہو گیا ہے۔۔۔
ڈاکثر صاحب نے اس پاگل سے پوچھا: تم ڈانس کیوں نہیں کر رہے؟؟؟
پاگل: چپ بے وقوف میں دولہا ہوں۔۔۔۔

---------------

لڑکی: پڑوس والی بڈھی آنٹی مجھے ہمیشہ تنگ کرتی تھی، جب بھی کسی لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو وہ میرے گال کھینچ کر کہتی تھی کہ 
اب تمہاری باری ہے
دوست: کیوں؟؟؟؟
لڑکی: کیونکہ جب بھی کوئی مر جاتا تو میں ان سے کہتی تھی
اب آپ کی باری ہے۔

-------------

پٹھان: یار یہ شادی کے جوڑے کہاں بنتے ہیں؟؟؟
سردار: آسمان پر
پٹھان: اف خدایا بہت بڑی غلطی ہوکئی۔۔
سردار: کیوں کیا ہوا؟؟؟
پٹھان:ہم نے تو کپڑا درذی کو دے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

-----------------

لڑکی: ڈاکٹر صاحب میرے بوائے فرینڈ کو اندر بلا لیں
ڈاکٹر: مجھ پر بھروسہ رکھو میں ایک شریف آدمی ہوں
لڑکی: نہیں ڈاکثر صاحب، وہ آپ کی نرس باہر اکیلی ہے، اور میرا بوائے فرینڈ شریف نہیں ہے۔۔۔۔

--------------

خاوند ٹی وی دیکھتے ہوئے زور زور سے رو رہا تھا
بیوی: کون سی فلم دیکھ رہے ہو جو اس طرح رو رہے ہو؟؟؟؟؟
خاوند: اپنی شادی کی ویڈیو دیکھ رہا ہوں

------------

شادی کے کجھ دن بعد بیٹی اپنی ماں سے فون پر: آج میری ان سے لڑائی ہو گئی ہے۔۔۔۔
ماں: بیٹا شادی کے بعد جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں
بیٹی: وہ تو ٹھیک ہے پر اب میں لاش کا کیا کروں

-----------------------------

لڑکوں کو لڑکیوں کے 
بڑے بڑے پسند ہوتے ہیں
لڑکیاں جب اچھلتی ہیں تو ان کہ ہلتے ہوئے بہت ہی پیارے لگتے ہیں

کیا؟؟


سوچو۔۔۔۔


ارے بابا سوچو بھی
دماغ پر ذور دو




ان کے بڑے بڑے پیارے پیارے 













بال



تو ممے سمجھا تھا نا؟؟؟
سالا ٹھرکی
---------------------
کل کافی دنوں بعد احمد سے ملاقات ہوئی۔ احمد پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کا سٹوڈنٹ ہے۔ میری اور احمد کی دوستی کافی سالوں سے ہے۔ ہم دونوں کل گوالمنڈی میں ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں بیٹھے سیاست پر بات کر رہے تھے۔ 

احمد کہہ رہا تھا "دیکھو عاشور، عمران خان ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نون لیگ اس حلقے میں پیتیس سال سے حکمران ہے لیکن گلیوں، سڑکوں، چوراہوں کی حالت تمہارے سامنے ہے۔ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کل مریم نواز کو اس حلقے میں ووٹ مانگتے دیکھا، وہ ناک پر دوپٹہ رکھ کر ووٹ مانگ رہی تھی۔ میں نے دل میں سوچا کہ بی بی ناک پر سے پلو ہٹا لو اور سونگھو اپنی اس پینتیس سالہ بادشاہی کو" 

ابھی احمد نے اتنا ہی کہا تھا کہ بیرا آرڈر لینے آ گیا۔ ہم نے اسے آدھا کلو مٹن کڑاہی کا آرڈر دے دیا۔ مٹن کڑاہی احمد کی فرمائش پر منگوائی گئی تھی کیونکہ مجھے کیلسٹرول کی وجہ سے ڈاکٹر نے گوشت کھانے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ میں نے اپنے لیے سبزی کا آرڈر دے دیا

احمد نے اپنی بات جاری رکھی، "اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس حلقے اور ملکی سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کریں اور اس بادشاہی نظام کا خاتمہ کریں اور یقین کرو لاہور کے عوام باشعور اور سمجھ دار ہیں، ان کو صرف صحیح اور غلط کی تمیز دلانے کی ضرورت ہے، یہی لوگ شریف خاندان کی سیاست کو اسی گندے پانی کے جوہڑ میں ڈبو دیں گے"

باتیں یونہی چلتی رہیں اور ہمارا آرڈر سرو ہو گیا۔ مٹن کڑاہی کی مصالحے دار خوشبو انتڑیوں تک اتر گئی۔ بھوک کی شدت میں پہلے سے اضافہ ہو گیا لیکن میں سبزی کھانے پر مجبور تھا۔ احمد نے بے صبری سے گرم گرم روٹی توڑی اور متن کڑاہی پر بھوکے عقاب کی طرح جھپٹ پڑا۔ لیکن اس کی پرمغزز اور انقلابی باتوں کا سلسلہ جاری تھا 

"میں دس سال سے پاکستان تحریکِ انصاف کی تنظیم سازی میں شامل ہوں اور ہم نے پورے لاہور میں ایسی تنظیم سازی کر رکھی ہے کہ اگلے جنرل الیکشنز میں ہم کو شکست دینا ناممکن ہو گا لیکن مسلہ وہ ازلی جہالت ہے جس کا ہم بطور معاشرہ شکار ہیں۔ آخر کب تک ہم ایک خاندان کی غلامی کریں گے؟ یہ لوگ کب تک ہم کو بے وقوف بناتے رہیں گے ؟ پہلے کہتے تھے کہ نوازشریف پر کرپشن کا کوئی چارج نہیں ہے لیکن اب خود ہی کرپشن کی تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے کہتے تھے ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور اب عدلیہ کو گالیاں دے کر پوچھتے کہ آخر ہم نے کیا کیا ہے، مجھے کیوں نکالا ؟" 

احمد آدھی مٹن کڑاہی ختم کر چکا تھا اور میں اس مدلل گفتگو بڑے انہماک سے سن رہا تھا 

"ویسے بات تو نوازشریف بالکل ٹھیک کر رہا ہے کہ آخر اسے کیوں نکالا ؟ بات تو پانامہ سے شروع ہوئی تھی اور نکال اقامہ پر دیا ؟ ویسے تم بھی مانو کہ عدالتوں نے یہ زیادتی کی ہے اور ہاں عدالتوں اور ایسٹبلشمنٹ کی یہ پرانی سازشیں ہیں جو وہ منتخب وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔" 

یہ سب سن کر میرے ہاتھوں سے روٹی کا نوالہ گر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ "احمد کیا بول رہا ہے یار تو ؟ تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ؟ " میں نے غصے سے احمد کو ڈانتآ 

احمد بھی غصے سے بولا "دیکھو سچ کو برداشت کرو، عمران خان نے تم کو برین واش کر دیا ہے، عمران خان تو خود ایسٹبلشمنٹ کا مہرہ ہے جو اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ فوج عدلیہ اور عمران خان ایک ساتھ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ عمران خان میں اتنی ہمت ہے تو وہ زرداری کے خلاف کیوں بات نہیں کرتا" 

میں نے جلدی سے سامنے دیکھا تو مٹن کڑاہی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ میں نے جلدی سے کڑاہی کو اٹھا کر اس کا مصالحہ سونگھا تو کراہت سے دماغ چکرا گیا ۔۔۔۔۔ میں نے کڑاہی اٹھا کر پرے پھینکی اور دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا کیونکہ مٹن کڑاہی کی آڑ میں انہوں نے احمد جیسے انقلابی کو کوتھا کڑاہی کھلا دی تھی اور اب یہ اسی کا اثر تھا کہ احمد بھی پٹواری بن چکا تھا۔ 

میں سر تھام کر نیچے بیٹھا تھا تو احمد نے مجھے جنجھوڑ کر کہا "نوازشریف ہمارے دِلوں کا وزیراعظم ہے، اس کو ہمارے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا" 

اور میں دل میں دل میں ہوٹل والوں کو گالیاں دے رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالمو کھوتا کھوا کے ساڈا منڈا کنجر کر دتا جے 

==========================================
عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ:
قتلت یوم قتل الثور الابیض (میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا). 
*********

اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی.  ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا. 
ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے. 
   شیر نے ایک چال چلی کی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا. لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی. 
  لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا. 
پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا. 
سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا, بہت آوازیں دیں, پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا. 
   مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا. 
وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا. 
  تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا.  جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو  لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ (میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا). 
امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے.  سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں لگے گی. کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں. 
ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا. 
ہم نے باری باری افغانستان, عراق, فلسطین, شام, بوسنیا, چیچنیا, کشمیر, برما اور صومالیہ میں مسلمانوں کے خون میں لت پت لاشوں کو تڑپتے دیکھا,  حلب اور ادلب پر کیمیکل بموں کے حملے دیکھے, فلسطینی مسلمانوں کے جنازوں پر بمباریاں دیکھیں, عراق میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نئے سے نئے حربے دیکھے, برمی مسلمانوں کو زندہ جلانے اور ان کے جسمانی اعضاء کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے دیکھا,  افغانستان پر کارپٹ بمباری سے لیکر "بموں کی ماں " کا حملہ دیکھا مگر اس خوشی میں چپ سادھے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ان سب کی باری تو لگی ہے مگر ہماری نہیں لگے گی. 
ہم سب (سعودیہ, مصر, پاکستان وغیرہ) لال بیل ہیں.  
اللہ نہ کرے کہ ہم پر پچھتاوے کی وہ گھڑی آ جائے جب ہم بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ: قتلت یوم قتل الثور الابیض "

Post a Comment

0 Comments