Government Officer's Wife Real Sex Story Part 9 بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 9

Government Officer's Wife Real Sex Story Part 9 بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 9

Government Officer's Wife Real Sex Story Part 9 بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 9
Government Officer's Wife Real Sex Story Part 9 بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 9

بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 9
‎اتوار کے دن میں نے سپیشل غسل کیا اور اپنے غیر ضروری بال اور ٹٹوں کی اچھی طرح صفائی کی ، اور امبر سے ملنے کے لئے تیار ہو گیا ، امبر اوکاڑہ تھی مجھے اس سے ملنے کے لئے اوکاڑہ جانا تھا میں رات ایک بجے کے قریب گھر سے نکلا اور دو بجے سے تقریبا پانچ منٹ پہلے اوکاڑہ پہنچ گیا ، میں وہاں اڈے پہ ایک ہوٹل میں بیٹھ گیا اور چائے کا آرڈر دیا اور چائے پینے کے بعد وہیں امبر کی کال کا انتظار کرنے لگا ، اس وقت میرا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا اور انجانا سا دبا دبا جوش بھی تھا امبر سے ملنے کی خوشی کا ، میں بڑی بےچینی سے امبر کی کال کا انتظار کر رہا تھا ، انتظار کے وہ لمحات میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ھوں کہ اس وقت میرے احساسات کیا تھے یہ تو وہی جان سکتا ھے جو کبھی اس کفیت سے گزرا ہو ،
دو پینتیس بجے امبر کی کال آئی میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ امبر کی کال اٹینڈ کی ، امبر نے کہا کہ عرفان مطلع صاف ہو گیا ھے آپ اب آ سکتے ہو ، میں نے وہاں سے رکشہ لیا اور امبر کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا –
رکشہ میں بیٹھ کر امبر کے گھر جاتے ہوئے میرے احساسات عجیب ہو رہے تھے ایک طرف امبر سے ملنے کی خوشی تھی اور دوسری طرف ایک انجانی سی بےچینی تھی جو ایسے موقعوں پر عام طور پر ہوتی ھے ، امبر کے ساتھ لذت بھرے لمحات گزارنے کے تصور سے ہی میرے جسم میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی اور میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رھا تھا ،
آنے والے لمحات یقینا میرے لئے خوشگوار ثابت ھوں گے، اس سوچ نے میرے عضوتناسل کو چوکس کر دیا تھا اور اس نے شلوار کے اندر سے ہی پھن اٹھانا شروع کر دیا تھا اسے میرے دل کی ڈھڑکنوں نے آگاہی دے دی تھی کہ اب اس کا من پسند شکار (پھدی) اس کے قریب ہی ھے جس پر وار کرنے کے لئے میرا عضوتناسل بالکل تیار ہو چکا تھا- دو پچاس پر میں اس کی گلی کی نکڑ پر اترا ، میں نے رکشہ میں بیٹھے بیٹھے ہی کرایہ دیا کیونکہ میں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور کھڑے لن کی وجہ سے آگے سے ابھار کافی واضح تھا اور میں یہ ابھار رکشہ والے کو نہیں دکھانا چاہتا تھا ، رکشہ سے اتر کر میں امبر کی گلی میں داخل ہو گیا اور میں نے امبر کو کال کی اور اسے دروازے پر آنے کا کہا کیونکہ مجھے اس کے گھر کا پتا نہیں تھا صرف گلی کا پتا تھا امبر کی ہدایات کی روشنی میں، میں اس کے گھر کے دروازے میں داخل ہو گیا ، امبر گھر کے اندر دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اندر سے کنڈی لگانے کے بعد اندر کی طرف چل دی ، باہر کی نسبت امبر کا گھر اندر سے کافی پیارا تھا ، امبر سیدھی اپنے بیڈ روم میں گئی اور اس کے پیچھے پیچھے میں بھی ، بیڈ کے ایک طرف شہزاد امبر کا بیٹا سویا ہوا تھا
:
“”” ہائے ری شہوت تیرا ستیاناس ! “””
.
ایک سائڈ پہ بیٹا سویا ہوا ھے اور دوسری سائڈ پہ یار چدائی کرنے والا تھا ،
امبر نے مجھے وہاں بیڈ پر بیٹھنے کا کہا اور میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی ، میں امبر کے گھر رات کی تنہائی میں اس کی عصمت پر ڈاکہ ڈالنے آیا تھا اگر کوئی مسلئہ ہو جاتا تو بہت بےعزت ہونا تھا – سچ بتاؤں تو میں اس وقت بہت ڈرا ہوا تھا ،
“کیسے ہو عرفان ؟” امبر نے پوچھا،
“ٹھیک ھوں ” میں نے جواب دیا ،
“آج رات سوئے تو نہیں ہو گئے ؟” امبر نے پوچھا ،
“آج رات آپ سے ملنا تھا تو نیند کیسے آ سکتی تھی ” میں نے جواب دیا ،
ایسے ہی باتوں کے دوران میرا خوف کافی حد تک کم ہو گیا تھا اور دوبارہ سے مجھ پر شہوت سوار ہونا شروع ہو گئی تھی ، امبر نے جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور دوپٹا نہیں اوڑھا ہوا تھا قمیض کی فیٹینگ کی وجہ سے اس کی چھاتیاں تنی ہوئی تھیں جن پر نظر پڑتے ہی میرے عضوتناسل نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا، میں نے باتوں میں مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور پیشقدمی کرتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ اس کے بائیں پٹ thigh پر رکھا اور ہلکے ہلکے سہلانے لگا ، امبر نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسے دبانے لگی یہ اس کی طرف سے گرین سگنل تھا میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے مزید خود سے قریب کیا اور اسے گلے لگا لیا –
امبر کا نرم و نازک اور گداذ جسم اب میری بانہوں میں تھا ایسا جسم جس کی میں نے پھر سے تمنا کی تھی امبر کی چھاتیاں میرے سینے سے چپکی ہوئیں تھیں اور اس کی چھاتیوں کے لمس نے میرے اندر کرنٹ پیدا کر دیا تھا میرا عضوتناسل ایک دم سیدھا ہو کر اس کے جسم سے ٹکرانے لگا تھا اور میں لذت کی ان دیکھی دنیا میں چلا گیا ، لذت کی اس دنیا سے اپنا حصہ کشید کرنے کے لئے میں نے اپنے ہونٹ امبر کے ہونٹوں سے ملا دئیے اور انھیں چوسنے لگا ،
امبر بھی برسوں کی پیاسی لگ رہی تھی وہ بھی شاید کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھی اور اب اسے موقع ملا تھا تو وہ وحشی شیرنی کی طرح مجھ سے چمٹ گئی ، اور دیوانوں کی طرح مجھے چومنے لگی اس کی طرف سے اتنا بھرپور رسپانس دیکھ کر مجھ میں بھی وحشی پن آ گیا اور میں نے کسنگ کے ساتھ ساتھ دانتوں کا بھی استمال شروع کر دیا اس کے ہونٹوں پر کاٹی کرنے لگا ہم ایکدوسرے کو پاگلوں کی طرح چومنے لگے، اسی پاگل پن میں میں نے امبر کے ہونٹوں پر زور سے کاٹی کر دی جس سے اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار ظاہر ہوئے اور اس نے کہا
عرفان ہونٹوں پر کاٹی نہ کرو ورنہ ہونٹوں پر کٹ cut آ جائے گا، میرے میاں مجھ پر شک کر سکتے ہیں ،
میں نے اسے کچھ کہے بغیر زور سے بانہوں میں بھینچ لیا اور اس کے گالوں کو چومنے لگا ، اس کے خوبصورت چہرے کو میں تیزی سے چوم رھا تھا کبھی اس کے گالوں پر ، کبھی آنکھوں پر تو کبھی ہونٹوں پر- اس عمل کے دوران مجھے بہت لطف آ رھا تھا اور مزا امبر کو بھی آ رھا تھا جس کا اظہار اس کے چہرے سے ہو رھا تھا ،
چند منٹ کی چوما چاٹی کے بعد میں نے امبر اور خود کو کپڑوں کی قید سے آزاد کیا اور امبر کو بیڈ پر لٹا لیا ، اور خود امبر کے اوپر لیٹ گیا ، میرا عضوتناسل (لن) اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا اور اس کی پھدی کے سامنے اس کے پٹوں میں داخل ہو گیا امبر بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور اس کی ٹانگیں بھی بالکل سیدھی اور آپس میں جڑی ہوئی تھیں ، میرا لن اس کی پھدی سے ٹکرا رہا تھا اور میں اس کی چھاتیوں کے اردگرد کے حصے کو چوس رہا تھا میں نے اس کی بھاری چھاتیاں ہاتھ سے اوپر کر کے اس کے نچلے حصے کو چاٹنا شروع کر دیا اور اس کی چھاتیوں کے نیچے والے حصے کو منہ میں بھر لیا اور اس پر اندر سے ہی زبان پھیرنے لگا جس سے اس کی لذت سے بھرپور سسکاریاں تیز ہو گئیں ،
میں اس وقت بہت زیادہ جوش میں تھا ، اس کی سسکاریوں کو سن کر زیادہ دیر خود کو نہ روک سکا اور اس کے اوپر لیٹ گیا ،
وہ بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور میں نے اپنا لن اس کی پھدی کے حساب سے ایڈجسٹ کیا اور اس کے اوپر سیدھا لیٹ گیا ، اپنے پاؤں کے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی کے درمیان اس کے پاؤں کے انگوٹھے جکڑ لئے اور لن کو اس کی پھدی کے لپس کے درمیان رکھ کر ایک تیز جھٹکا مارا –
آہ ! امبر کے منہ سے ھلکی سی سسکاری نکلی اور میرا لن اس کی گیلی پھدی میں جڑ تک چلا گیا اس کی چکنی پھدی اندر سے گرم تھی اور اس کی گرماہٹ مجھے اپنے لن پر صاف محسوس ہو رہی تھی اس کی پھدی کی گرماہٹ مجھے بہت پر لطف محسوس ہوئی اور میں نے اس کی پھدی میں اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا ، میرا سارا وزن امبر کے اوپر تھا لیکن اس وقت وہ مزے میں کھوئی ہوئی تھی اور اسے یہ وزن بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا ، میں بڑے جوش سے اس کی گرم پھدی میں اپنا لن اندر باہر کر رہا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے ھلکی آواز میں سسکاریاں بھر رہی تھی –
آہ . . . . عرفان . . . سسکاریوں کے درمیان کبھی کبھی اس کے منہ سے نکلتا جسے سن کر میں اور جوش سے جھٹکے مارنا شروع ہو جاتا جس سے ہمارے جسموں کے ٹکرانے سے دھپ دھپ کی تیز آواز کمرے میں گونج رہی تھی -دو سے تین منٹ میں ہی میں فارغ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور میں نے اپنی سپیڈ فل تیز کر دی اور پورے زور سے دھکے مارنے لگا اس دوران امبر نے اپنی بانہوں کا گھیرا میری کمر کے گرد کس لیا اور جپھی ڈال کے مجھے زور سے بھینچ لیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بھی ڈسچادج ہونے کے قریب ھے ، میں چند مزید زور دار جھٹکوں کے بعد اس کی پھدی میں ہی ڈسچادج ہو گیا لیکن اس کی بانہوں کا گھیرا ابھی بھی میری کمر کے گرد تنگ تھا ،
میرا لن ڈسچادج ہونے کے بعد ابھی زیادہ ڈھیلا نہیں ہوا تھا اس میں ابھی جان باقی تھی اور امبر بھی فارغ ہونے کے قریب تھی ، میں نے ڈسچادج ہونے کے باوجود جھٹکے جاری رکھے لیکن اب ان میں پہلی سی طاقت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود امبر میرا لن اپنی پھدی میں محسوس کر رہی تھی اور خود بھی نیچے سے ہلنے لگی تھی اب میں اپنا عضوتناسل اندر کرنے کے بعد زور سے اس کی پھدی پر دباؤ ڈالتا مطلب کہ سارا اندر کرنے کے بعد بھی مزید اندر کرنے کے لئے زور لگاتا جس پر وہ بھی اپنی پھدی کو لن کی طرف دباتی ، ایسے ہی اگلے تیس سیکنڈ کے اندر امبر بھی ڈسچادج ہو گئی اور اس کی بانہوں کا گھیرا ڈھیلا ہو گیا ،اب کی بار میں امبر سے پہلے ڈسچادج ہو گیا تھا میں اس کی پھدی کی گرمی زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکا تھا لیکن امبر کو بھی ڈسچادج کروانے میں کامیاب ہو گیا تھا –
ڈسچادج ہونے کے بعد میں امبر کی دائیں طرف لیٹ گیا ، میرا چہرہ امبر کی طرف تھا اور ایک ہاتھ اس کے سینے پر – امبر آنکھیں بند کئے سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ، میری آنکھیں اس کے چہرے پر تھیں امبر اس وقت مجھے دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگ رہی تھی ، چند منٹ اسے یوں ہی دیکھنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی اور اس کی ایک چھاتی کو دبایا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ، اس کی آنکھوں میں اس وقت انوکھی ہی چمک تھی جیسے ہی اس کی آنکھیں مجھ سے چار ہوئیں اس کے چہرے پر سرشاری کی لہر مزید واضح ہو گئی اور اس کی مسکراہٹ . . . ! اف . . کیا بتاؤں اس کی مسکراہٹ قیامت سے کم نہ تھی ، اس کی مسکراہٹ … نے میرے دل کی دنیا کو زیر و زبر کر دیا تھا، میں کوئی بادشاہ ہوتا تو اپنی ساری بادشاہں اس کی مسکراہٹ پر نچھاور کر دیتا –
ڈسچادج ہونے کے بعد میں امبر کی دائیں طرف لیٹ گیا ، میرا چہرہ امبر کی طرف تھا اور ایک ہاتھ اس کے سینے پر – امبر آنکھیں بند کئے سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ، میری آنکھیں اس کے چہرے پر تھیں امبر اس وقت مجھے دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگ رہی تھی ، چند منٹ اسے یوں ہی دیکھنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی اور اس کی ایک چھاتی کو دبایا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ، اس کی آنکھوں میں اس وقت انوکھی ہی چمک تھی جیسے ہی اس کی آنکھیں مجھ سے چار ہوئیں اس کے چہرے پر سرشاری کی لہر مزید واضح ہو گئی اور اس کی مسکراہٹ . . . ! اف . . کیا بتاؤں اس کی مسکراہٹ قیامت سے کم نہ تھی ، اس کی مسکراہٹ … نے میرے دل کی دنیا کو زیر و زبر کر دیا تھا، میں کوئی بادشاہ ہوتا تو اپنی ساری بادشاہں اس کی مسکراہٹ پر نچھاور کر دیتا –
میں نے بے اختیار اس کے چہرے کو والہانہ انداز میں چومنا شروع کر دیا اس نے مجھے بانہوں میں لے لیا اور جپھی ڈال لی ، میں چومتا چومتا اس کے چہرے سے گردن پر آ گیا جیسے ہی میری زبان اور گرم جذبات سے لبریز سانسیں اس کی گردن سے ٹکرایں اس کے منہ سے لذت بھری سسکاری نکلی اور اس نے مجھے خود سے دور کرنے کی کوشش کی ، اس دوری میں بھی اپنائیٹ کا احساس تھا میں نے پوچھا کیا ہوا امبر ؟ تو اس نے کہا گدگدی ہو رہی ھے – میں ہنسا اور دوبارہ سے اس کی گردن کو چومنے ، چاٹنے اور کاٹنے لگا لیکن کاٹنے میں بھی یہ خیال رکھا تھا کہ کوئی زخم نہ بنے – امبر ان عورتوں میں سے تھی جو مزا لینا اور دینا جانتی تھی ورنہ تو بیویاں ایسے لمحات میں جھجک اختیار کرتی ہیں یا یہ سمجھتی ہیں کہ جو کرنا ھے مرد نے ہی کرنا ھے ، اسی سوچ کی وجہ سے وہ رسپانس نہیں دیتیں اور لیٹی رہتی ہیں نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ نہ تو شوہر کو مزا آتا ھے اور نہ ہی بیوی کو ، ایسے میں مرد باہر منہ نہ مارے یا دوسری شادی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا ؟
اگر ایسا کرے تو بیوی بیوفائی کا طعنہ دیتی ھے ، اس کہانی کے ذریعے میں تمام عورتوں سے التماس کروں گا کہ خاص لمحات میں وہ اپنے پارٹنر کا بھرپور ساتھ دیا کریں تاکہ ان کے مرد باہر منہ نہ ماریں ،
میں امبر کو چوم اور چاٹ رہا تھا ایسے ہی چومتے چومتے میں نے اس کو الٹا مطلب کے پیٹ کے بل لٹا لیا اور اس کے بیک سائڈ پر کسنگ کرنے لگا ، کسنگ کرتے کرتے میں نیچے اس کی گانڈ تک پہنچ گیا ،اس کی نرم گوشت سے بھرپور گانڈ دیکھ کر مجھے پتا نہیں کیا ہوا ، میں نے اپنا لن اس کی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر اس کے اوپر لیٹ گیا اب میرا لن اس کی گانڈ کی دراڑ میں تھا اور میرا سینہ اور جسم اس کی پشت سے چپکا ہوا تھا ، میں نے نیچے سے اس کے ممے پکڑ کر دبانے شروع کر دئیے اس کی سانسوں میں تیزی اور منہ سے سسکاریاں مزید بلند ہو گئیں تھیں –
اب میرا ذہن اس کی گانڈ مارنے کو چاہ رھا تھا لیکن اس سے پہلے میں نے کبھی گانڈ نہیں ماری تھی اب موقع دیکھ کر میرا دل اس تجربہ سے گزرنے کو کرنے لگا تھا ، اس میں قصور میرا بھی نہیں تھا کیونکہ اس کی گانڈ نرم و ملائم ، گوری چٹی ، گوشت سے بھرپور وائبریشن والی تھی ، میں نے اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میں نے اسکی گانڈ کے سوراخ پر اپنا لن رکھا اور دباؤ ڈالا تو امبر کے منہ سے اک سی . . . نکلی اس نے سیدھا ہونے کی کوشش کی اور کہا،
عرفان یہ کیا کر رہے ہو ؟
میں نے کبھی ایسے نہیں کیا ، یہ گناہ ھے –
امبر گناہ ثواب کے چکروں میں نہ پڑو، یہ عمل بہت مزے دار ھے ایک دفعہ مجھے کرنے دو ، میں نے اسے منانے کے لئے کہا –
لیکن امبر گانڈ سے کروانے کے لئے مان نہیں رہی تھی ، میں نے اس کو منانے کے لئے کوشش جاری رکھی، بالآخر چار پانچ منٹ بعد اس نے کہا پیچھے سے کرنے سے بہت زیادہ درد ہو گی ، اس کے یہ الفاظ اس کی رضامندی کی نوید سنا رہے تھے – میں اسے منانے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا ،
میں نے اسے کہا کہ میں بہت آرام سے کروں گا اور آپ کو زیادہ درد نہیں ہو گی ،
میں نے دوبارہ سے اسے الٹا لٹایا اور اس کے چوتڑوں کو چومنے لگا اور اس کے چوتڑوں کا نرم و نازک گوشت دانتوں میں لے کر کاٹی کرنے لگا جیسے ہی دانتوں کا دباؤ بڑھتا تو اس کے منہ سے درد بھری سسکاری نکلتی لیکن امبر نے مجھے نہیں روکا ، شاید یہ درد بھی اس کے لئے لذت آمیز تھا ،
اس کی گوری چٹی گانڈ چدنے کے لئے میرے سامنے تھی چنانچہ میں نے دیر کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ صبح بھی ہونے والی تھی اس لئے میں نے اپنا عضوتناسل اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور ہلکا سا جھٹکا مارا لیکن اس کے اندر نہ گیا اور نیچے کی طرف اسکی گرم پھدی کے لپس میں پہنچ گیا ،
پہلی کوشش ناکام ہو گئی تھی ، میں نے اس کے اوپر لیٹ کر کرنے کی کوشش کی تھی ،
میں نے دوبارہ سے اسی طریقے سے اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور اس دفعہ جھٹکا مارنے کی بجائے آہستہ آہستہ دباؤ بڑھانا شروع کیا، جب اسکی گانڈ کے سوراخ پر دباؤ بڑھا تو امبر نے کہا عرفان بہت درد ہو رہی ھے، آہستہ کرنا ، لن ابھی اندر نہیں گیا تھا اوراس کو درد ہونا شروع ہو گیا تھا میں نے کہا امبر آرام سے ہی کروں گا تم ڈرو نہیں ، لن کا دباؤ بڑھاتے ہوئے میں نے امبر سے کہا لن بالکل صحیح جگہ پر تھا اور جب دباؤ اور بڑھا تو لن کی ٹوپی اس کے سوراخ میں داخل ہو گئی اور ساتھ ہی امبر کی چیخ نما ہائے نکلی اور کہنے لگی عرفان نہ کرو بہت زیادہ درد ہو رہی ھے عرفان تمہیں میری قسم باہر نکالو ، ساتھ ہی ساتھ اس کے منہ سے درد بھری آوازیں نکل رہی تھیں ، میں نے اس کی باتوں پر دھیان نہ دیتے ہوئے آہستہ آہستہ اندر کرنا شروع کر دیا تھا اور آدھے سے زیادہ لن اندر جا چکا تھا ، پہلے میں نے صرف سنا تھا کہ گانڈ کا سوراخ پھدی کی نسبت تنگ ہوتا ھے لیکن اس دن میں نے عملی تجربہ کیا تھا ، گانڈ میں لن روانی سے نہیں جا رھا تھا شاید میں نے کوئی تیل یا کریم نہیں لگائی تھی اسلئے لن پر تھوڑی رگڑ محسوس ہو رہی تھی میں نے لن پر کافی سارا تھوک ڈال کر اندر باہر کرنا شروع کر دیا ، تھوک لگانے کے بعد رگڑ کا احساس ختم ہو گیا تھا اور لن اندر باہر آسانی سے جانا شروع ہو گیا تھا گانڈ کے سوراخ کی میرے لن پر گرفت کافی ٹائٹ تھی ، میں بڑے آرام سے اندر باہر کر رھا تھا لیکن امبر کا درد کم نہیں ہوا تھا وہ بار بار ایک ہی جملہ دھرا رہی تھی عرفان بہت درد ہو رہا ھے اور درد بھری سسکاریاں متواتر اس کے منہ سے نکل رہی تھیں – ایسے ہی آگے پیچھے کرتے ہوئے ایک بار باہر نکلا تو امبر نے فوری کہا باہر نکل گیا ھے جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ امبر کو بیشک درد ہو رھا تھا لیکن مزا اس کو بھی آ رہا تھا ، ایسے ہی اس کے اندر باہر کرنے سے چند منٹ بعد میں اس کی گانڈ میں ہی فارغ ہو گیا –
امبر کے واش روم جانے کے بعد میں نے اپنے کپڑے پہن لئے کیونکہ اذان ہونے والی تھی – امبر واش روم سے باہر آئی تو اس نے اپنے بیٹے پر ایک نگاہ ڈالی وہ سویا ہوا تھا اور اس نے کپڑے پہننے شروع کر دئیے ، امبر اور میں آج ایک نئے مزے سے آشنا ہوئے تھے ، امبر کے چہرے پر خوشی کی چمک تھی جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو – میں نے امبر سے پوچھا پھر کب ملو گی ؟جب کبھی کوئی موقع ملا تو میں آپ کو بتا دوں گی ، امبر نے کہا ،
جانے سے پہلے میں نے اس کے ہونٹوں پر ایک بھرپور کس کی اور باہر نکل آیا ، ابھی میں نے آدھی گلی ہو عبور کی تھی کہ سامنے سے کسی نے مجھ پر ٹارچ کی روشنی پھینکی –
جیسے ہی کسی نے مجھ پر ٹارچ کی روشنی پھینکی میں ڈر گیا ، میرے دل کی دھڑکنیں ایک دم تیز ہو گئیں اور دل ایسے دھڑکنے لگا جیسے سینہ پھاڑ کر باہر آنا چاہتا ہو ، میرے ذہن میں پہلا خیال جو آیا وہ یہ تھا کہ محلے کے لڑکوں نے مجھے امبر کے گھر سے نکلتے دیکھ لیا ھے اور اب میری خیر نہیں ،
وہ کہتے ہیں نا کہ
“چور کی داڑھی میں تنکا ”
میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا چونکہ میں امبر سے رات کے اندھیرے میں اس کے جسم سے اپنی پیاس بجھانے آیا تھا اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ وہ کسی کی عزت ھے ، عزت کا لٹیرا ہونے کی وجہ سے میں ڈرا ہوا تھا ورنہ آج کے دور میں کون پرائے لفڑوں/پھڈوں میں پڑتا ھے لوگ دیکھتے ہیں آنکھ بند کر لیتے ہیں ویسے بھی لوگ ایکدوسرے کو اتنا نہیں جانتے اور گھروں میں آنے والوں کو تو بالکل نہیں –
چوکیدار نے مجھ پر ٹارچ کی لائٹ ماری تھی لائٹ مارنے کے بعد وہ سائیکل پر بنا کوئی استفسار کیے بغیر میرے پاس سے گزر گیا تھا ، چوکیدار کو دیکھ کر میری جان میں جان آئی ، اور میرے تیز دھڑکنیں اعتدال پر آ گئیں ، اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوا واپس گھر پہنچ گیا -انیلہ اور امبر کے ساتھ میرے ناجائز تعلقات تھے ، وہ دونوں آپس میں کزن تھیں ، وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھیں کہ وہ ایک ہی لن سے اپنی پیاس بجھاتی تھیں ، میں بڑی کامیابی سے دونوں کے جسموں سے لذت کشید کر رھا تھا –
انیلہ میری جان بہت دن ہو گئے ہیں آپ سے ملاقات نہیں ہوئی ، آج رات میں تمہارے گھر تم سے ملنے آ رھا ھوں ، یہ الفاظ میں نے فون پر انیلہ سے بات کے دوران کہے تو انیلہ نے کہا ہاں عرفان دن تو بہت ہو گئے ہیں لیکن ڈر لگتا ھے بدنامی سے – میں تو یہ سوچ کر کانپ جاتی ھوں کہ اگر کسی دن پکڑے گئے تو کیا ہو گا – بس یہی سوچ کر آپ کو نہیں بلایا –
انیلہ پتا ھے نا جو ڈر گیا وہ مر گیا ، بس مجھے نہیں پتا تم کل بازار آ رہی ہو دوپہر کا کھانا اکٹھے ہی کھائیں گے میں نے کہا تو امبر کہنے لگی کوشش کروں گی –
اگلے دن امبر سے بات ہوئی تو اس نے کہا عرفان ایک بجے کے قریب ہم شہر آئیں گی انیلہ اپنی آنٹی پروین کے ساتھ بازار آئی اور گھر سے نکلتے وقت اس نے مجھے فون کر دیا تھا ، میں بھی وقت مقررہ پر بازار چلا گیا ، اب کی بار میں نے پہلے کی طرح سپیشل تیاری نہیں کی تھی ، جن کپڑوں میں تھا انھی میں بائک لے کر نکل آیا تھا ، حسب معمول انیلہ میرے پیچھے اپنے ممے جوڑ کر بیٹھی تھی اس کی نرم و گداذ چھاتیوں نے میرا لن کھڑا کر دیا تھا اوپر سے وہ اپنی ہتھیلی سے میرا کندھا دبا رہی تھی جس سے میرا لن میرے پیٹ سے ٹچ ہونے لگا تھا ،(لن پیٹ سے لگنا مطلب ہوشیاری کی آخری سٹیج جس کے بعد لن پانی چھوڑ جاتا ھے ) –
تھوڑی دیر بعد ریسٹورنٹ آ گیا ورنہ میں تو ڈسچادج ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا ، ایسے ہی کھڑے لن کے ساتھ میں انیلہ اور پروین کے ساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا اور ایک کیبن میں انٹر ہو گئے ، کھانے کا آرڈر دیا اس دوران میں نے پروین کی وجہ سے کوئی خاص بات نہیں کی ، بس ایکدوسرے کا حال حال پوچھا اس دوران کھانا آ گیا ، کھانا کھانے کے بعد آئس کریم کا پوچھا تو انیلہ نے ہاں جبکہ پروین نے انکار کیا دانتوں کی خرابی کی وجہ سے ٹھنڈا گرم لگنے والا مسلئہ تھا اس کے ساتھ –
دو کپ آئس کریم کا آرڈر دیا اور آئس کریم کا انتظار کرنے لگے ، انیلہ نے آنکھ سے پروین کو اشارہ کیا تو پروین باتھ روم کا بہانہ کر کے وہاں سے اٹھ گئی –
پروین کے جانے کے بعد انیلہ کے چہرے پر ایک قاتلانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی جس نے میری ڈھڑکنوں میں تلاطم برپا کر دیا میں نے بے اختیار ہو کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملانے کے لئے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لے جانے لگا ، میرے اور انیلہ کے ہونٹ آہستہ آہستہ قریب ہونے لگے میرے اور اس کے ہونٹوں کا درمیانی فاصلہ جیسے جیسے کم ہو رہا تھا انیلہ کی تیز ہوتی ہوئی سانسیں مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہونے لگیں تھیں اس سے پہلے کہ ہمارے ہونٹ آپس میں پیوست ہوتے باہر ویٹر کے قدموں کی آھٹ سنائی دی اور ہم فورا سیدھے ہو گئے ویٹر کے جانے کے بعد میں نے اپنا ایک ہاتھ انیلہ کی تھائیthigh پر رکھا اور دوسرا اس کی چھاتی پر –
میں نے اس کی چھاتی کو ہولے سے دبایا اس کے منہ سے ھلکی سی سسکاری نکلی اور اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیرنے لگے ، انیلہ ایک دم سے گرم ہو گئی تھی ، اس کو جذبات میں آتے دیکھ کر میں نے اپنا ہاتھ اس کے پٹوں سے پھدی کی طرف لے گیا
اس کی پھدی کے لپس کے دوران اپنی انگلی پھیرنے لگا اور اس کی شلوار کے اوپر سے ہی اس کی پھدی کو انگلیوں سے بڑی نزاکت سے بھینچنے لگا جس سے اس کے منہ سے آہ . اں : آہ . سی سی جیسی سسکاریاں نکلنے لگیں اور سانسیں تیز تیز چلنے لگیں ، اس کے جذبات کو دیکھتے ہوئے میں ایک ہاتھ اس کی شلوار کے اندر لے گیا اور انگلی اس کی چوت کے اوپر گھومانے لگا اس کے چوت کے اوپر چھوٹے چھوٹے بال تھے ،جب اس کی چوت کے بالوں پر انگلی پھیرتا تو اس کے چہرے پر لذت کا ایک خمار چھا جاتا تھا ، اس کی چوت کے ہونٹوں کے درمیان جب انگلی گئی تو مجھے پتا چلا کہ اس کی پھدی گیلی ہو چکی ھے میں نے جب اس کی چکنی پھدی محسوس کی تو اپنی ایک انگلی اس کی پھدی کے اندر کر دی اور اسے پہلے آہستہ آہستہ اور پھر تیزی سے آگے پیچھے کرنے لگا میری ساری انگلی اس کی پھدی میں نہیں جا رہی تھی اسلئے جب میں اس کی چوت میں انگلی آگے کرتا تو وہ آگے ہونے کی کوشش کرتی لیکن ہمارے بیٹھنے کا سٹائل ہی ایسا تھا کہ ساری انگلی اندر نہیں جا رہی تھی – میری انگلی کی سپیڈ بھی اس کی سسکاریوں کے ساتھ بڑھ رہی تھی ، ہم آخری کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ والے خالی تھے اسلئے مجھے اس کی سسکاریوں کی پروا نہیں تھی آہ آہ او آہ سی سی . . . . . جیسی تیز سسکاریوں سے وہ فارغ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی ایسے میں میں نے اس کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈال کر چوسنے لگا اور نیچے سے انگلی اندر باہر ، میرا لن فل تناؤ میں تھا میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کی پھدی میں اپنا لن ڈال کے اس کی پھدی کو پھدا بنا دوں ، اس کے بدن میں اینٹھن پیدا ہونا شروع ہو گئی میں نے ہونٹوں کے بعد اس کی چھاتی کی طرف توجہ دی اور اسے چوسنے اور چاٹنے لگا – یہ اینٹھن جلد ہی اکڑاؤ کی شکل میں آ گئی میں نے اس کی نپل پر زبان پھیرنا شروع کر دی اور نیچے سے انگلی کو گول گھماؤ کی صورت میں آگے پیچھے کرناشروع کر دیا اور پھر چند سیکنڈ میں ہی وہ ایک لمبی ہائے . . . .. کے ساتھ فارغ ہو گئی اور پھر اس کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا میں نے اس کی شلوار سے اپنی انگلی صاف کی اور انیلہ نے اپنا برا اور گلا ٹھیک کیا میں نے اوپر سے اس کی چھاتی باہر نکال لی تھی جس کو انیلہ نے ٹھیک کر لیا – انیلہ کے چہرے پر خوشی تھی جبکہ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میرے سارے جسم خاص کر چہرے سے گرمی کی لہریں نکل رہی ھوں – ہم اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہو کر بیٹھ گئے تھے اور ہماری چڑھی ہوئی سانسیں بھی بحال ہو گئی تھیں ہم خاموش تھے میں نے اس خاموشی کو توڑنے کے لئے انیلہ سے امبر کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کیسی ھے ؟ میں بھول گیا تھا جب آپ کسی لڑکی سے ڈیٹ پہ جاؤ تو اس کے علاوہ کسی اور لڑکی کا ذکر نہیں کرنا چاہئیے ، میرا یہ پوچھنا غضب ڈھا گیا انیلہ غصے میں آ گئی اور کہنے لگی

Post a Comment

5 Comments