Desi Urdu Hindi Kahani Chudai Ki Kahani بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 5
Desi Urdu Hindi Kahani Chudai Ki Kahani بڑے افسر کی بیوی کی کہانی پارٹ نمبر 5 |
وہ سمجھ گئی تھی کہ بھوکی شیرنی اس کی پھدی کو کہہ رہا تھا-
میں نہا کر باہر آیا تو امبر نے کپڑے چینج کر لئیے تھے اور ڈرائیر سے بال خشک کر رہی تھی ، امبر نہا کر بہت پیاری لگ رہی تھی اور میں سیدھا امبر کی طرف بڑھا اور اس کے ہونٹوں پر کس کرنے لگا ایک دو منٹ تو اس نے ساتھ دیا پھر الگ ھو گئی اور پوچھنے لگی کھانا گھر پر بناؤں یا باہر کھائیں ؟ تو میں نے کہا باہر ہی کھاتے ہیں ہم اکٹھے بیڈ پر بیٹھ گئے اور ٹی وی دیکھنے لگے اس دوران میں کبھی اس کے ممے دباتا اور کبھی اس کے چہرے گردن اور ہونٹوں پر کس کرتا ، تھوڑی دیر بعد ہی اس کا بیٹا اٹھ گیا اور رونے لگا، امبر مجھ سے الگ ھو کر بیٹے کو سنبھالنے لگی اور اس کو دودھ بنا کر دینے لگی ، دودھ پلانے کے بعد اس نے اپنے بیٹے کے کپڑے بدلے اور مجھ سے کہنے لگی کہ چلتے ہیں پہلے کہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر کھانا کھا کر واپس گھر آ جائیں گے ، ہم گھر سے نکلے اور لاہور کے مختلف تفریحی مقامات پر گھومے اور ایک جگہ سے کھانا کھایا اور تقریبا گیارہ بجے کے قریب گھر واپس آ گئے شہزاد (امبر کا بیٹا ) راستے میں ہی سو گیا تھا ، امبر نے اس کو بیڈ پر لٹایا
اور الماری سے ایک نائٹی اٹھائی اور واش روم میں گھس گئی
امبر نہا کر جب نائٹی پہن کر باہر آئی تو نائٹی اس کے جسم سے چپکی ہوئی تھی اس نے اپنا جسم خشک کئے بغیر ہی نائٹی پہن لی تھی ، امبر کا جسم صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں کی تفسیر لگ رہا تھا ، اس کی چھاتی کے نپلز صاف نظر آ رہے تھے ، امبر میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کی چھاتیاں بالکل تنی ہوئی حالت میں ہی رہتی تھیں ،
میں نے امبر کو اس حالت میں دیکھا تو میں آپے سے باہر ھو گیا اور امبر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اس سے جپھی ڈال لی اور اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اس کی گردن اور گالوں کو چومنے لگا اس کے گیلے بالوں سے شیمپو کی ہلکی ہلکی خوشبو آ رہی تھی جو میرے حواسوں پر عجیب طرح کا نشہ طاری کر رہی تھی اور میری بے قراری میں اضافہ کر رہی تھی اور میرے جوش کو بڑھا رہی تھی ، میں امبر کو بڑے جوش سے چوم رہا تھا امبر کے ہاتھ میرے جسم پر چل رہے تھے وہ میرا جسم سہلا رہی تھی اور میرے جسم کو اپنے جسم کی طرف دبا رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے جسم کو اپنے جسم میں سمو لینا چاہتی ھو ، امبر بھی بہت گرم ھو چکی تھی
وہ بھی بھرپور رسپانس دے رہی تھی میں اس کے جسم کی بیک پر آ گیا اور اپنے ہاتھ اس کے بازوں سے گزار کر اس کی چھاتیوں تک لے گیا اور ان کو پکڑ کر دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اس کی گردن پر کس کرنے لگا یہ میرا مخصوص سٹائل ہے جو میں ہر لڑکی سے کرتا ھوں :
میں جیسے جیسے اس کی گردن پر کس کر رہا تھا اس کی سانسوں میں تیزی آتی جا رہی تھی میرا لن اس وقت تک لکڑی کی طرح سخت ھو چکا تھا ، مجھے اس وقت فور پلے کا اتنا زیادہ پتا نہیں ہوتا تھا اس لئیے میں نے بنا مزید وقت ضائع کیے اس کو بیڈ کی طرف جھکانا شروع کیا اور اس کے ہاتھ بیڈ کی نکڑ پر جم گئے اور وہ آگے کو جھک گئی میں نے اپنا لن اس کے پھدی کے سوراخ پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا لگایا لیکن میرا لن پھدی کے لپس کے درمیان پھسل گیا اور اندر نہ گیا امبر نے اپنی تیز سانسوں میں کہا عرفان بیڈ پہ آ جاؤ ایسے تم سے نہیں ھو گا ، میں نے کہا امبر اس طریقے سے پہلی دفعہ کوشش کر رہا ھوں میں نے ایسے ہی کرنا ہے ،
اور الماری سے ایک نائٹی اٹھائی اور واش روم میں گھس گئی
امبر نہا کر جب نائٹی پہن کر باہر آئی تو نائٹی اس کے جسم سے چپکی ہوئی تھی اس نے اپنا جسم خشک کئے بغیر ہی نائٹی پہن لی تھی ، امبر کا جسم صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں کی تفسیر لگ رہا تھا ، اس کی چھاتی کے نپلز صاف نظر آ رہے تھے ، امبر میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کی چھاتیاں بالکل تنی ہوئی حالت میں ہی رہتی تھیں ،
میں نے امبر کو اس حالت میں دیکھا تو میں آپے سے باہر ھو گیا اور امبر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اس سے جپھی ڈال لی اور اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اس کی گردن اور گالوں کو چومنے لگا اس کے گیلے بالوں سے شیمپو کی ہلکی ہلکی خوشبو آ رہی تھی جو میرے حواسوں پر عجیب طرح کا نشہ طاری کر رہی تھی اور میری بے قراری میں اضافہ کر رہی تھی اور میرے جوش کو بڑھا رہی تھی ، میں امبر کو بڑے جوش سے چوم رہا تھا امبر کے ہاتھ میرے جسم پر چل رہے تھے وہ میرا جسم سہلا رہی تھی اور میرے جسم کو اپنے جسم کی طرف دبا رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے جسم کو اپنے جسم میں سمو لینا چاہتی ھو ، امبر بھی بہت گرم ھو چکی تھی
وہ بھی بھرپور رسپانس دے رہی تھی میں اس کے جسم کی بیک پر آ گیا اور اپنے ہاتھ اس کے بازوں سے گزار کر اس کی چھاتیوں تک لے گیا اور ان کو پکڑ کر دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اس کی گردن پر کس کرنے لگا یہ میرا مخصوص سٹائل ہے جو میں ہر لڑکی سے کرتا ھوں :
میں جیسے جیسے اس کی گردن پر کس کر رہا تھا اس کی سانسوں میں تیزی آتی جا رہی تھی میرا لن اس وقت تک لکڑی کی طرح سخت ھو چکا تھا ، مجھے اس وقت فور پلے کا اتنا زیادہ پتا نہیں ہوتا تھا اس لئیے میں نے بنا مزید وقت ضائع کیے اس کو بیڈ کی طرف جھکانا شروع کیا اور اس کے ہاتھ بیڈ کی نکڑ پر جم گئے اور وہ آگے کو جھک گئی میں نے اپنا لن اس کے پھدی کے سوراخ پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا لگایا لیکن میرا لن پھدی کے لپس کے درمیان پھسل گیا اور اندر نہ گیا امبر نے اپنی تیز سانسوں میں کہا عرفان بیڈ پہ آ جاؤ ایسے تم سے نہیں ھو گا ، میں نے کہا امبر اس طریقے سے پہلی دفعہ کوشش کر رہا ھوں میں نے ایسے ہی کرنا ہے ،
میں نے دونوں ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی پھدی کے لپس پر رکھے اور انگلیوں کی مدد سے اس کی پھدی کے لپس کھولے اور اپنا لن اس کی پھدی کے سوراخ پر رکھا اور جھٹکا دیا اور لن کا اگلا حصہ پھدی کے اندر چلا گیا ،
ہائے . . . . . . .
آہستہ کرو عرفان ، امبر کے منہ سے نکلا –
میں نے اور زور کا جھٹکا دیا اور سارا لن امبر کی پھدی میں چلا گیا اور امبر کے منہ سے بے ساختہ ایک سسکاری کے ساتھ نکلا ،
“ظالم”
ہائے . . . . . . .
آہستہ کرو عرفان ، امبر کے منہ سے نکلا –
میں نے اور زور کا جھٹکا دیا اور سارا لن امبر کی پھدی میں چلا گیا اور امبر کے منہ سے بے ساختہ ایک سسکاری کے ساتھ نکلا ،
“ظالم”
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا لیکن میں نے اپنے جھٹکوں کی طاقت تھوڑی کم کر دی تھی تا کہ امبر ریلیکس ھو جائے اور انجواۓ کر سکے ،
چند ہی لمحات بعد امبر کے منہ سے لذت بھری آہ . . او . . آہ . . اف . . کی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں اور امبر کو مزا آنا شروع ھو گیا تھا
میں نے امبر کو چوتروں سے تھوڑا اوپر اور کمر سے تھوڑا نیچے یعنی کولہوں سے پکڑا ہوا تھا اور وہ ڈوگی سٹائل میں آگے کو جھکی ہوئی تھی ، میں اپنے ہر جھٹکے کے ساتھ اس کو اپنی طرف کھینچتا تھا اس طرح میرا لن جڑ تک اس کی پھدی کی گہرائیوں کی سیر کر رہا تھا اور امبر کو مزے کی وادیوں کی سیر کروا رہا تھا ،جب میرا جسم اس کے چوتروں کے نرم گرم گوشت سے ٹکراتا تھا تو دھپ کی آواز پیدا ہوتی تھی، کمرے میں دھپ دھپ کی آواز کے ساتھ امبر کی لذت بھری سسکاریوں کی آواز گونج رہی تھی اور یہ آوازیں مجھے عجیب طرح کا لطف دے رہی تھیں ، میری سپیڈ خود بخود تیز ھو رہی تھی اور اب تو امبر اپنی گانڈ کو زور سے پیچھے کرتی جب میں اپنا لن اس کی پھدی کے اندر کرتا تھا اب تو امبر کے منہ سے ایسی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں تھیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں تھا خر خر ، آوں ، آں ، اف ، ، . . آہ آہ . . . جیسی بے ہنگم آوازیں تھیں
مجھے لگ رہا تھا کہ میں اب فارغ ہونے کے قریب پہنچ رہا تھا اس لئیے میں نے پوری طاقت سے جھٹکے مارنے شروع کر دئیے تھے کمرے میں دھپ دھپ اور امبر کی چیخوں میں مزید تیزی آ گئی تھی ، میرا لن منی اگلنے کے قریب تھا میرا جوش فل عروج پر پہنچ چکا تھا میں لمبے لمبے جھٹکے مارنے لگا اور میرے لن کی ٹوپی کے سوراخ سے سفید لیس دار مادہ جسے منی کہتے ہیں نکل کر جیسے ہی امبر کی پھدی کی گہرائیوں میں گم ہوا اس کے منہ سے لذت سے بھرپور ایک تیز چیخ نکلی اور پھر زور دار یعنی تیز سانسوں کی آوازیں نکلنے لگیں امبر بھی میرے ساتھ ڈسچادج ھو چکی تھی
اس کی پھدی کے پانی اور میرے لن سے نکلنے والے پانی نے اس کی پھدی کو جل تھل کر دیا تھا میں نے منی سے لتھڑے لن کو اس کی پھدی سے نکالا اور اس کو صاف کرنے کے لئے کپڑا ڈھونڈنے لگا ، امبر آگے بیڈ پر سینے کے بل لیٹ گئی تھی ، مجھے کوئی کپڑا نظر نہیں آیا تو میں نے امبر سے پوچھا تو اس نے اٹھ کر بیڈ کے گدے کے نیچے سے ایک کپڑا نکال کر دیا جس سے میں نے اپنا لن صاف کیا اور کپڑا بیڈ پر پھینک دیا ،
اس دوران امبر کا بیٹا گہری نیند سویا رہا اور اس کی آنکھ نہیں کھلی تھی، امبر نے بیڈ سے کپڑا اٹھایا اور اپنی پھدی صاف کرنے کے بعد دوبارہ گدے کے نیچے رکھ دیا،
اس رات میں نے مزید ایک بار امبر سے سیکس کیا اور پھر سو گیا ،
اگلے دن صبح صبح ابھی دن بھی نہیں نکلا تھا امبر نے مجھے جگا دیا اور اوپر والے کمرے میں سونے کے لئے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ نسرین(اس کی ملازمہ ) آنے والی ہے میں اوپر جا کر سو گیا ،
تقریبا ساڑھے آٹھ کے قریب مجھے نسرین نے ناشتہ کے لئے جگایا ، وہ اس وقت کافی پیاری لگ رہی تھی میں نے اسے ایک سمائل smile دی اور کہا ابھی آتا ھوں اور یہ کہتے ہوئے میری نظریں اس کی چھاتی پر تھیں ، میرا اس دفعہ نسرین کو چودنے کا پکا ارادہ تھا اس لئے میں نے بھی نسرین کو سگنل دینا مناسب سمجھا تھا نسرین بھی مسکرائی اور کمرے سے جانے لگی جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچی میں نے اسے آواز دی اس نے میری طرف دیکھا اور کہا جی صاب جی ؟
میں نے کہا “کچھ نہیں ”
تو اس نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور چلی گئی ،
اس دن کوئی خاص واقعہ نہیں ھوا کیونکہ ملازمہ گھر تھی جس کی وجہ سے امبر بہت محتاط تھی ، میرا اس دن امبر سے سیکس کے بعد ملازمہ سے سیکس کا پروگرام تھا میں نے سوچا تھا کہ بارہ بجے تک امبر کے ساتھ اور پھر ملازمہ کے ساتھ باقی کی رات گزاروں گا ،
آج جب میں سوچتا ھوں کہ امبر جیسی لڑکی کے ہوتے ہوئے بھی اس دن میرا ارادہ ملازمہ کو چودنے کا تھا حالانکہ امبر اس کی نسبت بہت زیادہ حسین اور کم عمر تھی تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جب پھدی آسانی سے مل رہی ھو تو کوئی نہیں چھوڑتا چاہے پھدی والی کوئی بڑھیا ہی کیوں نہ ھو ،
ہاں تو بات ھو رہی تھی اس دن کی جب امبر ملازمہ کی وجہ سے محتاط تھی اور میں نے رات میں امبر کے بعد ملازمہ کو چودنے کا پروگرام بنا رکھا تھا ، شام کے وقت امبر نے مجھے میسج کیا کہ “عرفان مجھے ماہواری (menses) شروع ھو گئی ہے اسلئے میں رات کو تمہارے پاس نہیں آ سکوں گی” –
میں یہ پڑھ کر بہت پریشان ہوا کہ اب میرا یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور مجھے ملازمہ کی پھدی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ، میں نے دن کو ہی امبر کو بتایا تھا کہ میں آج رات بھی یہیں رھوں گا لیکن اب میرا یہاں کوئی کام نہیں تھا اسلئے میں نے امبر کو میسج کیا کہ ٹھیک ہے میں پھر واپس اپنے گھر چلتا ھوں
تو امبر کا میسج آیا کہ آپ آج ادھر ہی رھو کل صبح چلے جانا،
میں نے وہاں رات رہنے کی حامی بھر لی جو کہ میرے دل کی بھی تمنا تھی ، میں نے امبر سے پوچھا کہ رات کو تو آؤ گئی نہ میرے پاس ؟
تو امبر نے کہا کہ نہیں عرفان ، مجھے ماہواری کے دوران بہت تکلیف ہوتی ہے اس لئے میں تمہارے پاس نہیں آؤں گی ، یہ پڑھ کر میں بہت خوش ہوا کہ آج کی رات مجھے ملازمہ سے موج مستی کرنے کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور میں آسانی سے پرجوش اور سیکسی ملازمہ کی چدائی کر سکوں گا ،
رات کے کھانے پر میرے اور امبر کے درمیان کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی اور رات کا کھانا ہم نے گھر پر ہی کھایا ،
کھانا کھانے کے بعد امبر اپنے اور میں اوپر والے کمرے میں چلا گیا ، ملازمہ نے سونے سے پہلے مجھے دودھ کا گلاس دینے کے لئے آنا تھا اور میں ملازمہ کی چدائی کا سوچ سوچ کر بہت پرجوش ھو رہا تھا اور اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا
میں بڑی بے چینی سے ملازمہ نسرین کا انتظار کر رہا تھا ، امبر کو ماہواری آنے سے میرے انتظار کی طوالت کم ھو گئی تھی اور مجھے آدھی رات کے بعد ملازمہ کے کوارٹر میں جانے کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ اب وہ میرے کمرے میں مجھے دودھ دینے آ رہی تھی ، نسرین کی عمر چالیس سال تھی اور وہ درمیانی شکل و صورت اور گداز جسم کی مالک تھی اس سے سیکس کرنے کی اہم وجہ اس کا عورت ہونا تھا عمر ، رنگ و روپ اور شکل و صورت سے مجھے ان دنوں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی تھی سیکس کرنے/پھدی لینے کا تصور ہی میرے لئے اتنا ہیجان خیز ہوتا تھا کہ میں مٹھ مارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا جب بھی میں کسی لڑکی کے بارے میں سیکس کے حوالے سے سوچتا تو اس کے نام کی مٹھ خود بخود “وج” جاتی تھی یہاں تو ایک جیتی جاگتی عورت میرے ہاتھ آنے والی تھی جو خود مجھ سے پھدی مروانا چاہتی تھی یہ موقع میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور بہت ایکسائیٹدڈ excited ھو رہا تھا
ہاں تو بات ملازمہ کی ھو رہی تھی میں اس کا انتظار کر رہا تھا اور مجھے امبر کی بات یاد آ رہی تھی کہ عرفان انتظار کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے لیکن مجھے اس وقت بالکل بھی مزا نہیں آ رہا تھا
اور میں بہت بے صبرا ھو رہا تھا، وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزر رہا تھا لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وقت کی رفتار بہت سست ھو گئی ہے اور گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ، نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا یہ ایک آدھ گھنٹے مجھے سالوں کے برابر لگ رہے تھے ، بالآخر میرا سالوں کا انتظار جو صرف ایک سے دو گھنٹوں پر محیط تھا ختم ہوا ، دروازے پر دستک ہوئی اور نسرین ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے اندر داخل ہوئی ،
نسرین نے اس وقت ہلکے آسمانی رنگ کی لون کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ، اس کی قمیض کی فٹنگ اوپر سے بہت ٹائٹ تھی جس کی وجہ سے اس کی چھاتیاں کسی جوان لڑکی کی طرح تنی ہوئی تھیں اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ رات کے اس پہر مجھے بہت حسین لگ رہی تھی ، اس کے آنے سے میرا چہرہ کھل اٹھا تھا اور میں بہت خوش ہوا تھا جس کا اظہار میرے چہرے سے ھو رہا تھا نسرین نے بھی اس چیز کو محسوس کیا اور مجھ سے پوچھنے لگی
“صاحب جی، آپ بہت خوش لگ رہے ہیں – کیا بات ہے ؟ ”
ویسے عام حالات میں تو میں اسے پتا نہیں کیا جواب دیتا لیکن اس وقت میں اس سے سیکس کرنا چاہتا تھا اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ بھی مجھ سے چدوانا چاہتی ہے اس لئے میں نے بے دھڑک ھو کر جواب دیا کہ اتنی حسین عورت کو دیکھ کر چہرے پر خوشی نہیں ، تو کیا آنا چاہئے ؟
یہ سن کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر ڈور گئی اور کہنے لگی کہ صاحب میں کہاں حسین ھوں تو میں نے کہا کہ مجھے صاحب نہیں عرفان کہو تو اس نے کہا جی “صاحب جی ”
میں نے کہا کہ پھر صاحب جی تو وہ کھلکھلا کر ہنسی ، اس کی ہنسی میں بے ساختگی اور خوشی کی جھلک تھی
اس وقت تک وہ میرے بستر کے پاس آ چکی تھی اور مجھ سے کہنے لگی کہ آپ کے لئے دودھ ،
میں نے کہا کہ اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دو اور میرے پاس آ کر بیٹھو –
تو نسرین نے کہا آپ دودھ پی لو میں ابھی آتی ھوں اور وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی ،
میں نے اس کے جانے کے بعد ویاگرا کی گولی نکالی اور اسے دودھ کے ساتھ نگل لیا اور نسرین کا انتظار کرنے لگا،
اس بار اس نے زیادہ دیر نہیں لگائی اور دس سے پندرہ منٹ کے اندر واپس کمرے میں لوٹ آئی ، اس بار اس کے چہرے پر عجیب طرح کی چمک تھی اور ٹیوٹ لائٹ کی روشنی میں اس کے چہرے پر ٹمٹماہٹ اور سرخی صاف نظر آ رہی تھی ایسی لگ رہا تھا کہ وہ چدنے کے لئے ذہنی طور پر مکمل تیار ھو کر آئی ہے – میں نے نسرین سے پوچھا کہاں گئی تھیں ؟ تو اس نے کہا کہ چوکیدار کو بتانے کے لئے کہ آج میں نے بی بی جی کے کمرے میں سونا ہے ورنہ چوکیدار مجھ پہ شک کر سکتا ہے کہ میں تمہارے پاس آئی ھوں اور وہ اپنا تجسس دور کرنے کے لئے یہاں چیک کرنے ہی نہ آ جائے
اور ساتھ ہی بی بی جی کو دیکھ کر آئی ھوں کہ سو گئیں ہیں یا جاگ رہی ہیں ،
میں نے نسرین سے یہ نہیں پوچھا کہ چوکیدار تمہیں کیوں چیک کرے گا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اس کی چودائی کرتا رہتا ہے ، میں نے پوچھا کہ امبر سو گئی ہے تو اس نے اثبات میں سر ہلایا –
نسرین ابھی میرے سامنے کھڑی تھی میں نے اسے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ مجھ سے تھوڑے فاصلے پر بیڈ پر بیٹھ گئی ،اس کے بیٹھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ بات کیسے شروع کروں میں چپ بیٹھا سوچ رہا تھا لیکن کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی ، وہ میری طرف کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی ، وہ سیکس کے لئے آمادہ تھی ، وہ خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی اور میری طرف سے پہل کی منتظر تھی لیکن میں پہل کرنے سے جھجک رہا تھا یہ مرحلہ مجھے ہمیشہ سے ہی مشکل لگا ہے کیونکہ لڑکی یا عورت پہل بہت کم کرتی ہیں میرا جن عورتوں سے بھی پالا پڑا ہے پہل مجھے ہی کرنا پڑی تھی اور یہاں بھی پہل میں نے ہی کی –
میں نے ہاتھ بڑھا کر نسرین کے کندھے پر رکھا اور خود اس کے نزدیک ھو گیا ، نزدیک جا کر میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے اپنے پہلو سے چپکا لیا
اور دوسرا ہاتھ اس کی چھاتی پر لے گیا اور اس کی چھاتی کو انگلیوں کی مدد سے دبانے لگا اس دوران اس نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا لیکن اپنے جسم کو میرے جسم کی طرف دبانے لگی دوسرے لفظوں میں اس نے اپنا جسم میرے جسم سے چپکا لیا لیکن منہ سے کوئی آواز نہیں نکالی
وہ ٹانگیں زمین کی طرف لٹکائے بیڈ پر بیٹھی تھی میں بھی اس کی چھاتی کو نرمی سے دباتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتر آیا اور اس کو گالوں سے پکڑ کر کھڑا کر لیا اور اس کی تنی ہوئی چھاتیوں کو اپنے سینے سے لگا کر اس کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا میں نے کھڑے کھڑے اسے جپھی ڈال لی تھی اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا ، کمر پر ہاتھوں کے لمس سے اس کی سانسیں تیز ہونا شروع ھو گئیں تھیں اور اس کی آنکھوں کا خمار بڑھنے لگا تھا
اور وہ جوش میں آنے لگی تھی
جس کا ثبوت یہ تھا کہ اس نے بھی اپنی بانہوں کا گھیرا میرے جسم کے گرد تنگ کیا اور میرے جسم کو زور سے بھینچ لیا اس کی نرم و گداز چھاتیوں کے لمس نے میرے لن پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ وہ اپنی مستی میں ناگ کی طرح تن کر سیدھا کھڑا ھو گیا تھا اور اس کی رانوں سے ٹکرا رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی بل (سوراخ) ڈھونڈ رہا ھو ،
میں اپنے مخصوص سٹائل میں اس کے پیچھے چلا گیا اور اس کے بازؤں کے نیچے سے اپنے ہاتھ گزار کر اس کی چھاتیاں پکڑ لیں اور ان کو دبانے لگا اور ساتھ میں اس کی بیک نک back neck کو چومنے لگا ، میرے ہاتھ مموں پر اور زبان گردن پر گردش کر رہی تھی جس سے نسرین بہت زیادہ گرم ھو گئی تھی اور بے اختیار اپنے ہاتھ پیچھے لے جا کر میرے پٹوں پر پھیرنے لگی اس کے ہاتھ میرے پٹوں پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جا رہے تھے اس کا یوں ہاتھ پھیرنا مجھے بہت مزا دے رہا تھا میں نے اس کے مموں کو اپنے ہاتھوں کے پیالہ میں لیا اور اس کی باڈی کو اپنے ساتھ زور سے چمٹا لیا میرا ہتھیار اس کے چوتروں کے درمیان تھا میں نے اسے زور سے بھینچا ہوا تھا وہ اپنی گانڈ کو میرے لن کی طرف دبا رہی تھی
ایسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کو باہر نہیں رہنے دینا چاہتی اور جلد سے جلد اس کو اپنی پھدی میں لینا چاہتی ہے ، میں نے بھی مزید انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا اور میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا شروع کیا تو نسرین نے اپنے بازؤ اوپر کر لئیے تا کہ قمیض آسانی سے اتر جائے میں نے اس کی قمیض اتار دی ، نیچے نسرین نے برا نہیں پہنی ہوئی تھی اور اس کی نرم و نازک چھاتیاں میرے سامنے تھیں اس کی نپلز کا کلر ڈارک براؤن تھا اور اس کی چھاتیوں کا سائز تقریبا چھتیس تھا اور اس کی نپلز کافی لمبی اور اور کھڑی حالت میں تھیں میں نے اس کا ایک دودھ منہ میں لے لیا اور نپلز کے اردگرد کا حصہ چومنے لگا میں جیسے جیسے اس کا مما چوس رہا تھا اس کے منہ سے کسی پورن سٹار کی طرح آہ . . آہ . .آں . . اف . . آہ . . . جیسی سیکسی آوازیں نکلنے لگیں اور جب میں نے اس کی نپلز منہ میں لی تو اس کے منہ سے ایک لمبی آہ ہ ہ ……. نکلی اور نسرین نے جوش میں آ کر مجھے پر جوش انداز میں زور سے گلے لگا لیا اور میری گالوں اور گردن کو والہانہ انداز میں چومنے لگی جس سے میں بھی اور جوش میں آ گیا اور میں نے اپنی قمیض اتار دی – قمیض اترتے ہی نسرین میرے سینے پر کس کرنے لگی اور کس کرتے کرتے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس نے ایک جھٹکے سے میرا ازار بند کھولا اور جلدی سے میری شلوار میرے پیروں پر گرا دی اور لن کو ہاتھ میں لے کر ایسے ہلانے لگی جیسے گئیر لگا رہی ھو ، چند سیکنڈ بعد اس نے میرے لن کو اپنے ہونٹوں سے لگایا اور لن کے ٹوپے پر زبان پھیرنے لگی ،جیسے جیسے وہ زبان میرے لن پر پھیر رہی تھی میرا لذت سے برا حال ھو رہا تھا یہ ویاگرا کا ہی کمال تھا کہ میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا ورنہ جس طرح وہ کر رہی تھی میرا فارغ ہونا یقینی تھا ، اب وہ لن کو پورا منہ میں لے جا کر چوپے لگا رہی تھی اور میں مزے کی انتہائی بلندیوں پر تھا ، میری تو اس نے پہلے ہی شلوار اتار دی تھی میں مکمل طور پر ننگا ھو چکا تھا جبکہ ابھی اس کی شلوار نہیں اتری تھی میں نے اس کھیل کو مزید طول دینا مناسب نہ سمجھا اور اس کو اختتام کی طرف لے جانے کے لئے اس کی شلوار کو نیچے کیا حسب توقع اس کی پھدی بالوں سے بھری ہوئی تھی یا یوں کہہ لیں کہ اس کی پھدی بالوں میں چھپی ہوئی تھی ، اس نے پیروں سے ہی اپنی شلوار اتاری اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی اب اس کا مدعا واضح تھا کہ اب میری چدائی کرو ، میں نے اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا لیں اور ان کو جوڑ کر دنوں پاؤں کا رخ آسمان کی طرف کیا اور اس کی ٹانگیں اپنے کندھے سے لگا لیں اور اس کے چوتر بیڈ کے کنارے سے باہر آ گئے تھے اور تھوڑے سے ترچھے ھو گئے تھے اور سائڈ سے اس کی پھدی کے لپس واضح ھو گئے تھے میں نے اپنا کھڑا لن اس کے بالوں سے بھرے سوراخ پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکے سے اس کی پھدی میں داخل کر دیا میرے لن کی ٹوپی جیسے ہی اس کی پھدی کی گہرائیوں میں اتری نسرین کے منہ سے ایک لمبی سی . . . نکلی اور ساتھ ہی لذت بھری سسکاری اس کے منہ سے برآمد ہوئی ، میں نے اپنے لن کو تیز جھٹکوں کے ساتھ آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اس سٹائل میں لن سارے کا سارا اس کی پھدی میں جا رہا تھا جیسے جیسے جھٹکے لگ رہے تھے ویسے ویسے اس کی سسکاریوں میں اضافہ ھو رہا تھا تھوڑی دیر بعد سیکسی فلموں کی ہیرؤین کی طرح چیخنے لگی اور ان چیخوں کے درمیان میں کبھی کبھی اس کے منہ سے نکلتا صاحب جی
میں جوش میں آ کر اس کو زور زور سے چود رہا تھا اس نے اپنی سیکسی آوازوں سے کمرہ سر پر اٹھایا ہوا تھا اور چند منٹوں بعد میں فارغ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اس لئے میں نے اپنے سٹروک لمبے اور تیز کر دئیے ، جیسے ہی میرے جھٹکے تیز ہوئے اس کا جسم اکڑنے لگا اور اس کی آوازیں بہت تیز ھو گئیں اور جیسے ہی میرے لن سے منی نکل کر اس کی پھدی میں گری اس کے منہ سے ایک تیز ہائے . . . نکلی اور چند لمحوں بعد اس کا جسم ڈھیلا پر گیا ہم ایک ساتھ ڈسچادج ھو چکے تھے ،
ملازمہ نسرین سے سیکس کا تجربہ بہت خوشگوار رہا تھا اور بہت انجواۓ کیا اس رات میں نے اس سے ایک بار اور یعنی دو دفعہ سیکس کیا اور صبح چار بجے کے قریب وہ اپنے کوارٹر میں چلی گئی ، میں امبر کے بعد اس کی ملازمہ کو بھی چودنے میں کامیاب ھو چکا تھا
چند ہی لمحات بعد امبر کے منہ سے لذت بھری آہ . . او . . آہ . . اف . . کی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں اور امبر کو مزا آنا شروع ھو گیا تھا
میں نے امبر کو چوتروں سے تھوڑا اوپر اور کمر سے تھوڑا نیچے یعنی کولہوں سے پکڑا ہوا تھا اور وہ ڈوگی سٹائل میں آگے کو جھکی ہوئی تھی ، میں اپنے ہر جھٹکے کے ساتھ اس کو اپنی طرف کھینچتا تھا اس طرح میرا لن جڑ تک اس کی پھدی کی گہرائیوں کی سیر کر رہا تھا اور امبر کو مزے کی وادیوں کی سیر کروا رہا تھا ،جب میرا جسم اس کے چوتروں کے نرم گرم گوشت سے ٹکراتا تھا تو دھپ کی آواز پیدا ہوتی تھی، کمرے میں دھپ دھپ کی آواز کے ساتھ امبر کی لذت بھری سسکاریوں کی آواز گونج رہی تھی اور یہ آوازیں مجھے عجیب طرح کا لطف دے رہی تھیں ، میری سپیڈ خود بخود تیز ھو رہی تھی اور اب تو امبر اپنی گانڈ کو زور سے پیچھے کرتی جب میں اپنا لن اس کی پھدی کے اندر کرتا تھا اب تو امبر کے منہ سے ایسی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں تھیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں تھا خر خر ، آوں ، آں ، اف ، ، . . آہ آہ . . . جیسی بے ہنگم آوازیں تھیں
مجھے لگ رہا تھا کہ میں اب فارغ ہونے کے قریب پہنچ رہا تھا اس لئیے میں نے پوری طاقت سے جھٹکے مارنے شروع کر دئیے تھے کمرے میں دھپ دھپ اور امبر کی چیخوں میں مزید تیزی آ گئی تھی ، میرا لن منی اگلنے کے قریب تھا میرا جوش فل عروج پر پہنچ چکا تھا میں لمبے لمبے جھٹکے مارنے لگا اور میرے لن کی ٹوپی کے سوراخ سے سفید لیس دار مادہ جسے منی کہتے ہیں نکل کر جیسے ہی امبر کی پھدی کی گہرائیوں میں گم ہوا اس کے منہ سے لذت سے بھرپور ایک تیز چیخ نکلی اور پھر زور دار یعنی تیز سانسوں کی آوازیں نکلنے لگیں امبر بھی میرے ساتھ ڈسچادج ھو چکی تھی
اس کی پھدی کے پانی اور میرے لن سے نکلنے والے پانی نے اس کی پھدی کو جل تھل کر دیا تھا میں نے منی سے لتھڑے لن کو اس کی پھدی سے نکالا اور اس کو صاف کرنے کے لئے کپڑا ڈھونڈنے لگا ، امبر آگے بیڈ پر سینے کے بل لیٹ گئی تھی ، مجھے کوئی کپڑا نظر نہیں آیا تو میں نے امبر سے پوچھا تو اس نے اٹھ کر بیڈ کے گدے کے نیچے سے ایک کپڑا نکال کر دیا جس سے میں نے اپنا لن صاف کیا اور کپڑا بیڈ پر پھینک دیا ،
اس دوران امبر کا بیٹا گہری نیند سویا رہا اور اس کی آنکھ نہیں کھلی تھی، امبر نے بیڈ سے کپڑا اٹھایا اور اپنی پھدی صاف کرنے کے بعد دوبارہ گدے کے نیچے رکھ دیا،
اس رات میں نے مزید ایک بار امبر سے سیکس کیا اور پھر سو گیا ،
اگلے دن صبح صبح ابھی دن بھی نہیں نکلا تھا امبر نے مجھے جگا دیا اور اوپر والے کمرے میں سونے کے لئے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ نسرین(اس کی ملازمہ ) آنے والی ہے میں اوپر جا کر سو گیا ،
تقریبا ساڑھے آٹھ کے قریب مجھے نسرین نے ناشتہ کے لئے جگایا ، وہ اس وقت کافی پیاری لگ رہی تھی میں نے اسے ایک سمائل smile دی اور کہا ابھی آتا ھوں اور یہ کہتے ہوئے میری نظریں اس کی چھاتی پر تھیں ، میرا اس دفعہ نسرین کو چودنے کا پکا ارادہ تھا اس لئے میں نے بھی نسرین کو سگنل دینا مناسب سمجھا تھا نسرین بھی مسکرائی اور کمرے سے جانے لگی جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچی میں نے اسے آواز دی اس نے میری طرف دیکھا اور کہا جی صاب جی ؟
میں نے کہا “کچھ نہیں ”
تو اس نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور چلی گئی ،
اس دن کوئی خاص واقعہ نہیں ھوا کیونکہ ملازمہ گھر تھی جس کی وجہ سے امبر بہت محتاط تھی ، میرا اس دن امبر سے سیکس کے بعد ملازمہ سے سیکس کا پروگرام تھا میں نے سوچا تھا کہ بارہ بجے تک امبر کے ساتھ اور پھر ملازمہ کے ساتھ باقی کی رات گزاروں گا ،
آج جب میں سوچتا ھوں کہ امبر جیسی لڑکی کے ہوتے ہوئے بھی اس دن میرا ارادہ ملازمہ کو چودنے کا تھا حالانکہ امبر اس کی نسبت بہت زیادہ حسین اور کم عمر تھی تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جب پھدی آسانی سے مل رہی ھو تو کوئی نہیں چھوڑتا چاہے پھدی والی کوئی بڑھیا ہی کیوں نہ ھو ،
ہاں تو بات ھو رہی تھی اس دن کی جب امبر ملازمہ کی وجہ سے محتاط تھی اور میں نے رات میں امبر کے بعد ملازمہ کو چودنے کا پروگرام بنا رکھا تھا ، شام کے وقت امبر نے مجھے میسج کیا کہ “عرفان مجھے ماہواری (menses) شروع ھو گئی ہے اسلئے میں رات کو تمہارے پاس نہیں آ سکوں گی” –
میں یہ پڑھ کر بہت پریشان ہوا کہ اب میرا یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور مجھے ملازمہ کی پھدی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ، میں نے دن کو ہی امبر کو بتایا تھا کہ میں آج رات بھی یہیں رھوں گا لیکن اب میرا یہاں کوئی کام نہیں تھا اسلئے میں نے امبر کو میسج کیا کہ ٹھیک ہے میں پھر واپس اپنے گھر چلتا ھوں
تو امبر کا میسج آیا کہ آپ آج ادھر ہی رھو کل صبح چلے جانا،
میں نے وہاں رات رہنے کی حامی بھر لی جو کہ میرے دل کی بھی تمنا تھی ، میں نے امبر سے پوچھا کہ رات کو تو آؤ گئی نہ میرے پاس ؟
تو امبر نے کہا کہ نہیں عرفان ، مجھے ماہواری کے دوران بہت تکلیف ہوتی ہے اس لئے میں تمہارے پاس نہیں آؤں گی ، یہ پڑھ کر میں بہت خوش ہوا کہ آج کی رات مجھے ملازمہ سے موج مستی کرنے کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور میں آسانی سے پرجوش اور سیکسی ملازمہ کی چدائی کر سکوں گا ،
رات کے کھانے پر میرے اور امبر کے درمیان کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی اور رات کا کھانا ہم نے گھر پر ہی کھایا ،
کھانا کھانے کے بعد امبر اپنے اور میں اوپر والے کمرے میں چلا گیا ، ملازمہ نے سونے سے پہلے مجھے دودھ کا گلاس دینے کے لئے آنا تھا اور میں ملازمہ کی چدائی کا سوچ سوچ کر بہت پرجوش ھو رہا تھا اور اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا
میں بڑی بے چینی سے ملازمہ نسرین کا انتظار کر رہا تھا ، امبر کو ماہواری آنے سے میرے انتظار کی طوالت کم ھو گئی تھی اور مجھے آدھی رات کے بعد ملازمہ کے کوارٹر میں جانے کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ اب وہ میرے کمرے میں مجھے دودھ دینے آ رہی تھی ، نسرین کی عمر چالیس سال تھی اور وہ درمیانی شکل و صورت اور گداز جسم کی مالک تھی اس سے سیکس کرنے کی اہم وجہ اس کا عورت ہونا تھا عمر ، رنگ و روپ اور شکل و صورت سے مجھے ان دنوں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی تھی سیکس کرنے/پھدی لینے کا تصور ہی میرے لئے اتنا ہیجان خیز ہوتا تھا کہ میں مٹھ مارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا جب بھی میں کسی لڑکی کے بارے میں سیکس کے حوالے سے سوچتا تو اس کے نام کی مٹھ خود بخود “وج” جاتی تھی یہاں تو ایک جیتی جاگتی عورت میرے ہاتھ آنے والی تھی جو خود مجھ سے پھدی مروانا چاہتی تھی یہ موقع میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور بہت ایکسائیٹدڈ excited ھو رہا تھا
ہاں تو بات ملازمہ کی ھو رہی تھی میں اس کا انتظار کر رہا تھا اور مجھے امبر کی بات یاد آ رہی تھی کہ عرفان انتظار کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے لیکن مجھے اس وقت بالکل بھی مزا نہیں آ رہا تھا
اور میں بہت بے صبرا ھو رہا تھا، وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزر رہا تھا لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وقت کی رفتار بہت سست ھو گئی ہے اور گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ، نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا یہ ایک آدھ گھنٹے مجھے سالوں کے برابر لگ رہے تھے ، بالآخر میرا سالوں کا انتظار جو صرف ایک سے دو گھنٹوں پر محیط تھا ختم ہوا ، دروازے پر دستک ہوئی اور نسرین ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے اندر داخل ہوئی ،
نسرین نے اس وقت ہلکے آسمانی رنگ کی لون کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ، اس کی قمیض کی فٹنگ اوپر سے بہت ٹائٹ تھی جس کی وجہ سے اس کی چھاتیاں کسی جوان لڑکی کی طرح تنی ہوئی تھیں اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ رات کے اس پہر مجھے بہت حسین لگ رہی تھی ، اس کے آنے سے میرا چہرہ کھل اٹھا تھا اور میں بہت خوش ہوا تھا جس کا اظہار میرے چہرے سے ھو رہا تھا نسرین نے بھی اس چیز کو محسوس کیا اور مجھ سے پوچھنے لگی
“صاحب جی، آپ بہت خوش لگ رہے ہیں – کیا بات ہے ؟ ”
ویسے عام حالات میں تو میں اسے پتا نہیں کیا جواب دیتا لیکن اس وقت میں اس سے سیکس کرنا چاہتا تھا اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ بھی مجھ سے چدوانا چاہتی ہے اس لئے میں نے بے دھڑک ھو کر جواب دیا کہ اتنی حسین عورت کو دیکھ کر چہرے پر خوشی نہیں ، تو کیا آنا چاہئے ؟
یہ سن کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر ڈور گئی اور کہنے لگی کہ صاحب میں کہاں حسین ھوں تو میں نے کہا کہ مجھے صاحب نہیں عرفان کہو تو اس نے کہا جی “صاحب جی ”
میں نے کہا کہ پھر صاحب جی تو وہ کھلکھلا کر ہنسی ، اس کی ہنسی میں بے ساختگی اور خوشی کی جھلک تھی
اس وقت تک وہ میرے بستر کے پاس آ چکی تھی اور مجھ سے کہنے لگی کہ آپ کے لئے دودھ ،
میں نے کہا کہ اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دو اور میرے پاس آ کر بیٹھو –
تو نسرین نے کہا آپ دودھ پی لو میں ابھی آتی ھوں اور وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی ،
میں نے اس کے جانے کے بعد ویاگرا کی گولی نکالی اور اسے دودھ کے ساتھ نگل لیا اور نسرین کا انتظار کرنے لگا،
اس بار اس نے زیادہ دیر نہیں لگائی اور دس سے پندرہ منٹ کے اندر واپس کمرے میں لوٹ آئی ، اس بار اس کے چہرے پر عجیب طرح کی چمک تھی اور ٹیوٹ لائٹ کی روشنی میں اس کے چہرے پر ٹمٹماہٹ اور سرخی صاف نظر آ رہی تھی ایسی لگ رہا تھا کہ وہ چدنے کے لئے ذہنی طور پر مکمل تیار ھو کر آئی ہے – میں نے نسرین سے پوچھا کہاں گئی تھیں ؟ تو اس نے کہا کہ چوکیدار کو بتانے کے لئے کہ آج میں نے بی بی جی کے کمرے میں سونا ہے ورنہ چوکیدار مجھ پہ شک کر سکتا ہے کہ میں تمہارے پاس آئی ھوں اور وہ اپنا تجسس دور کرنے کے لئے یہاں چیک کرنے ہی نہ آ جائے
اور ساتھ ہی بی بی جی کو دیکھ کر آئی ھوں کہ سو گئیں ہیں یا جاگ رہی ہیں ،
میں نے نسرین سے یہ نہیں پوچھا کہ چوکیدار تمہیں کیوں چیک کرے گا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اس کی چودائی کرتا رہتا ہے ، میں نے پوچھا کہ امبر سو گئی ہے تو اس نے اثبات میں سر ہلایا –
نسرین ابھی میرے سامنے کھڑی تھی میں نے اسے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ مجھ سے تھوڑے فاصلے پر بیڈ پر بیٹھ گئی ،اس کے بیٹھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ بات کیسے شروع کروں میں چپ بیٹھا سوچ رہا تھا لیکن کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی ، وہ میری طرف کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی ، وہ سیکس کے لئے آمادہ تھی ، وہ خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی اور میری طرف سے پہل کی منتظر تھی لیکن میں پہل کرنے سے جھجک رہا تھا یہ مرحلہ مجھے ہمیشہ سے ہی مشکل لگا ہے کیونکہ لڑکی یا عورت پہل بہت کم کرتی ہیں میرا جن عورتوں سے بھی پالا پڑا ہے پہل مجھے ہی کرنا پڑی تھی اور یہاں بھی پہل میں نے ہی کی –
میں نے ہاتھ بڑھا کر نسرین کے کندھے پر رکھا اور خود اس کے نزدیک ھو گیا ، نزدیک جا کر میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے اپنے پہلو سے چپکا لیا
اور دوسرا ہاتھ اس کی چھاتی پر لے گیا اور اس کی چھاتی کو انگلیوں کی مدد سے دبانے لگا اس دوران اس نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا لیکن اپنے جسم کو میرے جسم کی طرف دبانے لگی دوسرے لفظوں میں اس نے اپنا جسم میرے جسم سے چپکا لیا لیکن منہ سے کوئی آواز نہیں نکالی
وہ ٹانگیں زمین کی طرف لٹکائے بیڈ پر بیٹھی تھی میں بھی اس کی چھاتی کو نرمی سے دباتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتر آیا اور اس کو گالوں سے پکڑ کر کھڑا کر لیا اور اس کی تنی ہوئی چھاتیوں کو اپنے سینے سے لگا کر اس کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا میں نے کھڑے کھڑے اسے جپھی ڈال لی تھی اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا ، کمر پر ہاتھوں کے لمس سے اس کی سانسیں تیز ہونا شروع ھو گئیں تھیں اور اس کی آنکھوں کا خمار بڑھنے لگا تھا
اور وہ جوش میں آنے لگی تھی
جس کا ثبوت یہ تھا کہ اس نے بھی اپنی بانہوں کا گھیرا میرے جسم کے گرد تنگ کیا اور میرے جسم کو زور سے بھینچ لیا اس کی نرم و گداز چھاتیوں کے لمس نے میرے لن پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ وہ اپنی مستی میں ناگ کی طرح تن کر سیدھا کھڑا ھو گیا تھا اور اس کی رانوں سے ٹکرا رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی بل (سوراخ) ڈھونڈ رہا ھو ،
میں اپنے مخصوص سٹائل میں اس کے پیچھے چلا گیا اور اس کے بازؤں کے نیچے سے اپنے ہاتھ گزار کر اس کی چھاتیاں پکڑ لیں اور ان کو دبانے لگا اور ساتھ میں اس کی بیک نک back neck کو چومنے لگا ، میرے ہاتھ مموں پر اور زبان گردن پر گردش کر رہی تھی جس سے نسرین بہت زیادہ گرم ھو گئی تھی اور بے اختیار اپنے ہاتھ پیچھے لے جا کر میرے پٹوں پر پھیرنے لگی اس کے ہاتھ میرے پٹوں پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جا رہے تھے اس کا یوں ہاتھ پھیرنا مجھے بہت مزا دے رہا تھا میں نے اس کے مموں کو اپنے ہاتھوں کے پیالہ میں لیا اور اس کی باڈی کو اپنے ساتھ زور سے چمٹا لیا میرا ہتھیار اس کے چوتروں کے درمیان تھا میں نے اسے زور سے بھینچا ہوا تھا وہ اپنی گانڈ کو میرے لن کی طرف دبا رہی تھی
ایسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کو باہر نہیں رہنے دینا چاہتی اور جلد سے جلد اس کو اپنی پھدی میں لینا چاہتی ہے ، میں نے بھی مزید انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا اور میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا شروع کیا تو نسرین نے اپنے بازؤ اوپر کر لئیے تا کہ قمیض آسانی سے اتر جائے میں نے اس کی قمیض اتار دی ، نیچے نسرین نے برا نہیں پہنی ہوئی تھی اور اس کی نرم و نازک چھاتیاں میرے سامنے تھیں اس کی نپلز کا کلر ڈارک براؤن تھا اور اس کی چھاتیوں کا سائز تقریبا چھتیس تھا اور اس کی نپلز کافی لمبی اور اور کھڑی حالت میں تھیں میں نے اس کا ایک دودھ منہ میں لے لیا اور نپلز کے اردگرد کا حصہ چومنے لگا میں جیسے جیسے اس کا مما چوس رہا تھا اس کے منہ سے کسی پورن سٹار کی طرح آہ . . آہ . .آں . . اف . . آہ . . . جیسی سیکسی آوازیں نکلنے لگیں اور جب میں نے اس کی نپلز منہ میں لی تو اس کے منہ سے ایک لمبی آہ ہ ہ ……. نکلی اور نسرین نے جوش میں آ کر مجھے پر جوش انداز میں زور سے گلے لگا لیا اور میری گالوں اور گردن کو والہانہ انداز میں چومنے لگی جس سے میں بھی اور جوش میں آ گیا اور میں نے اپنی قمیض اتار دی – قمیض اترتے ہی نسرین میرے سینے پر کس کرنے لگی اور کس کرتے کرتے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس نے ایک جھٹکے سے میرا ازار بند کھولا اور جلدی سے میری شلوار میرے پیروں پر گرا دی اور لن کو ہاتھ میں لے کر ایسے ہلانے لگی جیسے گئیر لگا رہی ھو ، چند سیکنڈ بعد اس نے میرے لن کو اپنے ہونٹوں سے لگایا اور لن کے ٹوپے پر زبان پھیرنے لگی ،جیسے جیسے وہ زبان میرے لن پر پھیر رہی تھی میرا لذت سے برا حال ھو رہا تھا یہ ویاگرا کا ہی کمال تھا کہ میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا ورنہ جس طرح وہ کر رہی تھی میرا فارغ ہونا یقینی تھا ، اب وہ لن کو پورا منہ میں لے جا کر چوپے لگا رہی تھی اور میں مزے کی انتہائی بلندیوں پر تھا ، میری تو اس نے پہلے ہی شلوار اتار دی تھی میں مکمل طور پر ننگا ھو چکا تھا جبکہ ابھی اس کی شلوار نہیں اتری تھی میں نے اس کھیل کو مزید طول دینا مناسب نہ سمجھا اور اس کو اختتام کی طرف لے جانے کے لئے اس کی شلوار کو نیچے کیا حسب توقع اس کی پھدی بالوں سے بھری ہوئی تھی یا یوں کہہ لیں کہ اس کی پھدی بالوں میں چھپی ہوئی تھی ، اس نے پیروں سے ہی اپنی شلوار اتاری اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی اب اس کا مدعا واضح تھا کہ اب میری چدائی کرو ، میں نے اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا لیں اور ان کو جوڑ کر دنوں پاؤں کا رخ آسمان کی طرف کیا اور اس کی ٹانگیں اپنے کندھے سے لگا لیں اور اس کے چوتر بیڈ کے کنارے سے باہر آ گئے تھے اور تھوڑے سے ترچھے ھو گئے تھے اور سائڈ سے اس کی پھدی کے لپس واضح ھو گئے تھے میں نے اپنا کھڑا لن اس کے بالوں سے بھرے سوراخ پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکے سے اس کی پھدی میں داخل کر دیا میرے لن کی ٹوپی جیسے ہی اس کی پھدی کی گہرائیوں میں اتری نسرین کے منہ سے ایک لمبی سی . . . نکلی اور ساتھ ہی لذت بھری سسکاری اس کے منہ سے برآمد ہوئی ، میں نے اپنے لن کو تیز جھٹکوں کے ساتھ آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اس سٹائل میں لن سارے کا سارا اس کی پھدی میں جا رہا تھا جیسے جیسے جھٹکے لگ رہے تھے ویسے ویسے اس کی سسکاریوں میں اضافہ ھو رہا تھا تھوڑی دیر بعد سیکسی فلموں کی ہیرؤین کی طرح چیخنے لگی اور ان چیخوں کے درمیان میں کبھی کبھی اس کے منہ سے نکلتا صاحب جی
میں جوش میں آ کر اس کو زور زور سے چود رہا تھا اس نے اپنی سیکسی آوازوں سے کمرہ سر پر اٹھایا ہوا تھا اور چند منٹوں بعد میں فارغ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اس لئے میں نے اپنے سٹروک لمبے اور تیز کر دئیے ، جیسے ہی میرے جھٹکے تیز ہوئے اس کا جسم اکڑنے لگا اور اس کی آوازیں بہت تیز ھو گئیں اور جیسے ہی میرے لن سے منی نکل کر اس کی پھدی میں گری اس کے منہ سے ایک تیز ہائے . . . نکلی اور چند لمحوں بعد اس کا جسم ڈھیلا پر گیا ہم ایک ساتھ ڈسچادج ھو چکے تھے ،
ملازمہ نسرین سے سیکس کا تجربہ بہت خوشگوار رہا تھا اور بہت انجواۓ کیا اس رات میں نے اس سے ایک بار اور یعنی دو دفعہ سیکس کیا اور صبح چار بجے کے قریب وہ اپنے کوارٹر میں چلی گئی ، میں امبر کے بعد اس کی ملازمہ کو بھی چودنے میں کامیاب ھو چکا تھا
نسرین کے ساتھ بھرپور رات گزارنے کے بعد میں سو گیا ، سوتے میں مجھے ایسے لگا جیسے کوئی میرے کیلے کو ہاتھ میں لے کر آہستہ آہستہ دبا رہا ہے میری آنکھ کھلی تو دیکھا نسرین میرا وہ ہاتھ میں پکڑ کر کھیل رہی تھی میری آنکھ کھلتے دیکھ کر کہنے لگی آپ جاگ گئے صاحب ؟
امبر بی بی ناشتہ پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں آپ فریش ھو کر نیچے آ جائیں ، نسرین اس وقت بہت نکھری نکھری اور فریش لگ رہی تھی اور اس نے جامن رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جس میں وہ کافی اچھی لگ رہی تھی ، میں نے اس کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے اوپر گرا لیا اور اس کے ہونٹوں کو ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا اور ایک ہاتھ سے اس کی چھاتی دبانے لگا ، ایک آدھ منٹ تو اس نے ساتھ دیا پھر خود کو چھڑا کر کمرے سے چلی گئی ،
میں بستر سے اترا اور واش روم میں گھس گیا اور پندرہ منٹ بعد فریش ھو کر نیچے ناشتہ کی میز پر آ کر بیٹھ گیا ، میرے نیچے آنے کے دو تین منٹ بعد امبر بھی آ گئی ، امبر اپنی طرف سے تو فریش ھو کر آئی تھی لیکن اس کے چہرے پر کل کی طرح تازگی نہیں تھی شاید اس کی وجہ ماہواری تھی ، اس دن پہلی دفعہ میرے مشاہدہ میں یہ چیز آئی کہ ماہواری عورتوں کے چہرے سے فریش نس freshness چھین لیتی ہے – امبر نے آتے ہی سلام کہا اور پوچھنے لگی ، ” عرفان کیسے ھو” ؟
میں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ میں ٹھیک ٹھاک ھوں ، آپ سناؤ ، آپ کیسی ہیں ؟ اس نے پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا ،کہ آپ کے سامنے ھوں، مجھے لگ رہا تھا کہ ماہواری نے اس کی رات ضائع کی ہے جس کا اس افسوس ھو رہا تھا ، باتوں باتوں میں ناشتہ ختم کیا اور پھر میں نے امبر سے جانے کی اجازت مانگی تو وہ کہنے لگی
“رکو ” میں ابھی آتی ھوں ، چند منٹ بعد وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا گفٹ تھا وہ اس نے مجھے دیا لیکن میں نے انکار کر دیا کہ میں گفٹ نہیں لوں گا ، (گفٹ نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ میں اس کے لئے گفٹ نہیں لایا تھا اور صرف گفٹ لیتے ہوئے دل میں شرمندہ ھو رہا تھا )
تو اس نے کہا میں یہ خاص طور پر آپ کے لئے لائی ھوں ، آپ کو میری قسم رکھ لو –
میں نے گفٹ لے لیا اور امبر سے اجازت لی تو امبر نے کہا میں آپ کو چھوڑ آتی ھوں ، راستے میں اس سے پوچھا کہ اب کب ملاقات ھو گئی ؟
تو اس نے کہا دیکھو کب موقع ملتا ہے ، میں نے راستے میں اس کی تعریف کی اور اس کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو اس کے سامنے اپنی زندگی کے نا قابل فراموش لمحات قرار دیا اور جلد ہی اگلی ملاقات کا وعدہ لیا.
امبر نے مجھے ٹھوکر ڈراپ کیا ، جانے سے پہلے امبر نے بہت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اوراس بات پر معذرت کی کہ آپ کو رات اکیلا سونا پڑا، میں لفظ اکیلا سن کر دل ہی دل میں ہنسا(کیونکہ میری وہ رات ملازمہ کے ساتھ گزری تھی اور بہت رنگین تھی ) اور بس میں سوار ھو کر واپس ساہیوال آ گیا میں نے ساہیوال پہنچ کر گفٹ کی پیکنگ کھولی تو اس میں ایک بہت پیاری گولڈن رنگ کی گھڑی تھی اور ساتھ ایک چھوٹا کارڈ تھا ، کارڈ پر لکھا تھا
“عرفان میری جان میں آپ کو بہت مس کروں گی،”
امبر بی بی ناشتہ پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں آپ فریش ھو کر نیچے آ جائیں ، نسرین اس وقت بہت نکھری نکھری اور فریش لگ رہی تھی اور اس نے جامن رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جس میں وہ کافی اچھی لگ رہی تھی ، میں نے اس کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے اوپر گرا لیا اور اس کے ہونٹوں کو ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا اور ایک ہاتھ سے اس کی چھاتی دبانے لگا ، ایک آدھ منٹ تو اس نے ساتھ دیا پھر خود کو چھڑا کر کمرے سے چلی گئی ،
میں بستر سے اترا اور واش روم میں گھس گیا اور پندرہ منٹ بعد فریش ھو کر نیچے ناشتہ کی میز پر آ کر بیٹھ گیا ، میرے نیچے آنے کے دو تین منٹ بعد امبر بھی آ گئی ، امبر اپنی طرف سے تو فریش ھو کر آئی تھی لیکن اس کے چہرے پر کل کی طرح تازگی نہیں تھی شاید اس کی وجہ ماہواری تھی ، اس دن پہلی دفعہ میرے مشاہدہ میں یہ چیز آئی کہ ماہواری عورتوں کے چہرے سے فریش نس freshness چھین لیتی ہے – امبر نے آتے ہی سلام کہا اور پوچھنے لگی ، ” عرفان کیسے ھو” ؟
میں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ میں ٹھیک ٹھاک ھوں ، آپ سناؤ ، آپ کیسی ہیں ؟ اس نے پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا ،کہ آپ کے سامنے ھوں، مجھے لگ رہا تھا کہ ماہواری نے اس کی رات ضائع کی ہے جس کا اس افسوس ھو رہا تھا ، باتوں باتوں میں ناشتہ ختم کیا اور پھر میں نے امبر سے جانے کی اجازت مانگی تو وہ کہنے لگی
“رکو ” میں ابھی آتی ھوں ، چند منٹ بعد وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا گفٹ تھا وہ اس نے مجھے دیا لیکن میں نے انکار کر دیا کہ میں گفٹ نہیں لوں گا ، (گفٹ نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ میں اس کے لئے گفٹ نہیں لایا تھا اور صرف گفٹ لیتے ہوئے دل میں شرمندہ ھو رہا تھا )
تو اس نے کہا میں یہ خاص طور پر آپ کے لئے لائی ھوں ، آپ کو میری قسم رکھ لو –
میں نے گفٹ لے لیا اور امبر سے اجازت لی تو امبر نے کہا میں آپ کو چھوڑ آتی ھوں ، راستے میں اس سے پوچھا کہ اب کب ملاقات ھو گئی ؟
تو اس نے کہا دیکھو کب موقع ملتا ہے ، میں نے راستے میں اس کی تعریف کی اور اس کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو اس کے سامنے اپنی زندگی کے نا قابل فراموش لمحات قرار دیا اور جلد ہی اگلی ملاقات کا وعدہ لیا.
امبر نے مجھے ٹھوکر ڈراپ کیا ، جانے سے پہلے امبر نے بہت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اوراس بات پر معذرت کی کہ آپ کو رات اکیلا سونا پڑا، میں لفظ اکیلا سن کر دل ہی دل میں ہنسا(کیونکہ میری وہ رات ملازمہ کے ساتھ گزری تھی اور بہت رنگین تھی ) اور بس میں سوار ھو کر واپس ساہیوال آ گیا میں نے ساہیوال پہنچ کر گفٹ کی پیکنگ کھولی تو اس میں ایک بہت پیاری گولڈن رنگ کی گھڑی تھی اور ساتھ ایک چھوٹا کارڈ تھا ، کارڈ پر لکھا تھا
“عرفان میری جان میں آپ کو بہت مس کروں گی،”
امبر کے خاوند کے واپس آنے میں چند دن باقی تھے اور اب اس کا اور میرا جلد ملنا مشکل نظر آ رہا تھا لیکن یہ اتنا بھی مشکل نہیں تھا کیونکہ اب امبر کو موقع کی تلاش میں رہنا تھا جب بھی موقع ملتا ہماری ملاقات ہونا تھی ،
میں جب لاہور امبر کے ساتھ تھا تو انیلہ (امبر کی کزن ) سے فون پر بات نہیں ہوئی تھی صرف میسج پر تھوڑی بات ہوئی تھی اب میں نے اپنے دو ٹارگٹ پورے کر لئے تھے
میں جب لاہور امبر کے ساتھ تھا تو انیلہ (امبر کی کزن ) سے فون پر بات نہیں ہوئی تھی صرف میسج پر تھوڑی بات ہوئی تھی اب میں نے اپنے دو ٹارگٹ پورے کر لئے تھے
امبر اور اس کی ملازمہ نسرین اورآخری ٹارگٹ انیلہ تھی- اب ساہیوال آنے کے بعد میں نے انیلہ پر اپنا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور دن دو بجے کے قریب میں نے انیلہ کو کال کی تو انیلہ مجھ سے شکوہ کرنے لگی کہ عرفان تم مجھے اگنور ignore کر رہے ھو بہت کم ٹائم نکالتے ھو میرے لئے ،
جب کوئی لڑکی آپ سے شکوہ کرے تو اس وقت آپ کے پاس موقع ہوتا ہے کہ بھرپور ڈائیلاگز سے لڑکی کو مطمئین کر سکو ،
میں نے اس کے شکوہ کے جواب میں انیلہ سے کہا
“میری جان یہ میں ہی جانتا ھوں کہ آپ کے بغیر میرے یہ دو دن کیسے گزرے ، میں دیکھ رہا تھا کہ مجھے آپ سے کتنا پیار ہے آپ سے بات کئے بغیر میرے دن کیسے گزرتے ہیں اس لئے آپ سے بات نہ کی تھی لیکن آج نہیں رہ سکا اور دل کے ہاتھوں مجبور ھو کر آپ کو کال کی ہے اور میں اقرار کرتا ھوں کہ میں نے آپ کو بہت مس کیا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے آپ سے پیار ھو گیا ہے ، میں نے دو دن نہ ہی امبر سے بات کی تھی اور نہ ہی آپ سے لیکن اب امبر کو نہیں آپ کو فون کیا ہے کیونکہ آپ کا سانولے اور نمکین حسن نے میرے دن کا سکون اور رات کی نیند چھین لی ہے ، ”
انیلہ اپنے حسن کی تعریف اور یہ سن کر کہ امبر کی جگہ مجھے کال کی ہے بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی میں نے تو بس ویسے ہی بات کی تھی
میں نے انیلہ سے کہا کہ انیلہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا مجھے تم سے ملنا ہے
بتاؤ کب ملو گی تو وہ کہنے لگی کہ میں آپ سے بہت جلد ملوں گی بس جب بھی حالات سازگار ہوئے میں آپ کو بتا دوں گی ،
اس کے بعد کچھ عام سی باتیں ہوئیں اور کچھ رومانس کی ، اس دوران میں نے فون پر اس کو چوما بھی ، جواب میں اس نے مجھے بھی چوما لیکن فون پر ، بہت جلد اس سے ملاقات کا وعدہ لے کر میں نے فون بند کر دیا ،
اس رات امبر سے بھی بات ہوئی ، اس نے بتایا کہ اس کا خاوند ہفتے کی شام آ رہا ہے ، اس نے اس رات جس رات سیکس کیا تھا کا کوئی ذکر نہ کیا اور ساتھ میں معذرت بھی کی اور باتوں باتوں میں یہ بھی بتا دیا کہ ماہواری اس دفعہ دو دن پہلے سٹارٹ ھو گئی ہے ، وہ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ میں اس سے ناراض ھوں ماہواری کی وجہ سے اور مجھے اکیلہ سونا پڑا تھا ،
اس لئے اس سے گفٹ نہیں لے رہا تھا وہ اس بات کو کلیئر کر رہی تھی کہ دو دن پہلے ماہواری سٹارٹ ھو گئی تھی اس کا کوئی قصور نہیں تھا ، میں نے اس یہ باور کروا دیا کہ میں اس سے ناراض نہیں ھوں ، اور پیار بھری باتوں سے اس کا اعتماد بحال کیا اور وہ پہلے کی طرح نارمل ھو گئی ،
میرے مشاہدہ کے مطابق اگر کوئی لڑکی آپ سے پیار کرنا شروع ھو جائے تو اس کے لئے آپ کی ناراضگی بہت پریشان کن عمل ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میرا محبوب ناراض نہ ھو جائے ، اور اگر ناراض ھو جائے تو محبوب کو منانے کے لئے اپنا سارا کچھ قربان کر دیتی ہیں حتی کہ کنوارہ پن بھی گنوانا پڑے تو وہ نہیں ہچکچاتی ، اس لئے بہت ساری لڑکیاں پیار میں صرف اس لئے کنوارا پن گنوا لیتی ہیں کہ ان کا محبوب ناراض نہ ھو جائے اور صرف اسی کا رہے –
امبر کو مطمیئن کرنے کے بعد میں نے فون بند کر دیا –
جب کوئی لڑکی آپ سے شکوہ کرے تو اس وقت آپ کے پاس موقع ہوتا ہے کہ بھرپور ڈائیلاگز سے لڑکی کو مطمئین کر سکو ،
میں نے اس کے شکوہ کے جواب میں انیلہ سے کہا
“میری جان یہ میں ہی جانتا ھوں کہ آپ کے بغیر میرے یہ دو دن کیسے گزرے ، میں دیکھ رہا تھا کہ مجھے آپ سے کتنا پیار ہے آپ سے بات کئے بغیر میرے دن کیسے گزرتے ہیں اس لئے آپ سے بات نہ کی تھی لیکن آج نہیں رہ سکا اور دل کے ہاتھوں مجبور ھو کر آپ کو کال کی ہے اور میں اقرار کرتا ھوں کہ میں نے آپ کو بہت مس کیا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے آپ سے پیار ھو گیا ہے ، میں نے دو دن نہ ہی امبر سے بات کی تھی اور نہ ہی آپ سے لیکن اب امبر کو نہیں آپ کو فون کیا ہے کیونکہ آپ کا سانولے اور نمکین حسن نے میرے دن کا سکون اور رات کی نیند چھین لی ہے ، ”
انیلہ اپنے حسن کی تعریف اور یہ سن کر کہ امبر کی جگہ مجھے کال کی ہے بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی میں نے تو بس ویسے ہی بات کی تھی
میں نے انیلہ سے کہا کہ انیلہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا مجھے تم سے ملنا ہے
بتاؤ کب ملو گی تو وہ کہنے لگی کہ میں آپ سے بہت جلد ملوں گی بس جب بھی حالات سازگار ہوئے میں آپ کو بتا دوں گی ،
اس کے بعد کچھ عام سی باتیں ہوئیں اور کچھ رومانس کی ، اس دوران میں نے فون پر اس کو چوما بھی ، جواب میں اس نے مجھے بھی چوما لیکن فون پر ، بہت جلد اس سے ملاقات کا وعدہ لے کر میں نے فون بند کر دیا ،
اس رات امبر سے بھی بات ہوئی ، اس نے بتایا کہ اس کا خاوند ہفتے کی شام آ رہا ہے ، اس نے اس رات جس رات سیکس کیا تھا کا کوئی ذکر نہ کیا اور ساتھ میں معذرت بھی کی اور باتوں باتوں میں یہ بھی بتا دیا کہ ماہواری اس دفعہ دو دن پہلے سٹارٹ ھو گئی ہے ، وہ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ میں اس سے ناراض ھوں ماہواری کی وجہ سے اور مجھے اکیلہ سونا پڑا تھا ،
اس لئے اس سے گفٹ نہیں لے رہا تھا وہ اس بات کو کلیئر کر رہی تھی کہ دو دن پہلے ماہواری سٹارٹ ھو گئی تھی اس کا کوئی قصور نہیں تھا ، میں نے اس یہ باور کروا دیا کہ میں اس سے ناراض نہیں ھوں ، اور پیار بھری باتوں سے اس کا اعتماد بحال کیا اور وہ پہلے کی طرح نارمل ھو گئی ،
میرے مشاہدہ کے مطابق اگر کوئی لڑکی آپ سے پیار کرنا شروع ھو جائے تو اس کے لئے آپ کی ناراضگی بہت پریشان کن عمل ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میرا محبوب ناراض نہ ھو جائے ، اور اگر ناراض ھو جائے تو محبوب کو منانے کے لئے اپنا سارا کچھ قربان کر دیتی ہیں حتی کہ کنوارہ پن بھی گنوانا پڑے تو وہ نہیں ہچکچاتی ، اس لئے بہت ساری لڑکیاں پیار میں صرف اس لئے کنوارا پن گنوا لیتی ہیں کہ ان کا محبوب ناراض نہ ھو جائے اور صرف اسی کا رہے –
امبر کو مطمیئن کرنے کے بعد میں نے فون بند کر دیا –
2 Comments
Nice but what about new stories
ReplyDeletedesi aunties adult whatsapp group
ReplyDeleteincest girls incest whatsapp group link
girls whatsapp group
pakistani whatsapp group